"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
خاوند كے ليے بيوى پر ظلم و زيادتى كرنا اور اسے شديد زدكوب كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ عمومى طور پر دلائل جان ومال اور عزت و خون كى حفاظت اور اس كى پامالى اور سب و شتم مسلمان كو اذيت دينے كى حرمت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ چيز عورتوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كے بھى منافى ہے.
شريعت اسلاميہ نے عورت كو ہلكى سى مار كى سزا دينا اس حالت ميں مباح كى ہے جب وہ خاوند كى نافرمانى كرے اور اس كى بدماغى كا خدشہ ہو، اور پھر نہ تو وعظ و نصيحت سے كوئى فائدہ ہو اور نہ ہى اس سے بائيكاٹ كرنے سے بھى عورت سيدھى نہ ہو تو پھر ہلكى سے مار كى سزا دينى مباح ہو گى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جن عورتوں كى تمہيں نافرمانى اور بددماغى كا ڈر ہو تو انہيں وعظ و نصيحت كرو، اور انہيں بستر ميں الگ چھوڑ دو، اور انہيں ہلكى سى مار كى سزا دو، اگر تو وہ تمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر تم ان پر كوئى راہ تلاش مت كرو يقينا اللہ تعالى بلند و بالا اور عظيم ہے النساء ( 34 ).
اور حجۃ الوداع كے موقع پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خطبہ حج ميں ارشاد فرمايا:
" تم عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرو كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امان كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو تم نے اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور تمہارا ان پر حق ہے كہ جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ تمہارے بستر پر مت بيٹھيں، اور اگر وہ ايسا كرتى ہيں تو تمہيں ہلكى سى مار كى سزا دو، اور ان كے تم پر حقوق ميں سے يہ ہے كہ تم انہيں نان و نفقہ اور لباس اچھے طريقہ سے مہيا كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
ہلكى مار يا غير مبرح ضرب اسے كہا جائيگا جو نہ تو المناك ہو يعنى درد نہ ہو اور نہ ہى اس كے نشانات پڑيں، اور نہ ہى كوئى ہڈى ٹوٹے، اور نہ ہى وہ غصہ كو ٹھنڈا كرنے اور بطور انتقام ہو، بلكہ اس مار كا مقصد صرف اور صرف عورت كو ادب سكھانا ہو.
اسى ليے علماء كرام كا كہنا ہے كہ: يہ مسواك كى لكڑى وغيرہ سے ہونى چاہيے، اور اس كے ساتھ اسے مار كا سہارا انتہائى شديد ضرورت كى حالت ميں ہى لينا چاہيے "
ديكھيں: فتاوى عشرۃ النساء لليشخ ابن عثيمين رحمہ اللہ صفحہ ( 151 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2076 ) اور ( 41199 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
دوم:
خاوند كى اجازت كے بغير عورت كے ليے گھر سے باہر نكلنا جائز نہيں ہے، اور اگر وہ ايسا كرتى ہے تو وہ نافرمان شمار ہوگى، ليكن اگر كوئى ايسا سبب پايا جائے جو اس كے ليے گھر سے نكلنا مباح قرار دے مثلا خاوند اسے زدكوب كرتا ہے، يا پھر اسے اپنى جان كا خدشہ ہو تو نكل سكتى ہے، ليكن اگر اس كا اسى شہر ميں امن و امان سے رہنا ممكن ہو تو پھر دوسرے شہر ميں خاوند كى اجازت كے بغير سفر كرنا حرام ہوگا.
اور اگر خاوند غصہ كى حالت ميں اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كر سكتا، اور آپ دونوں كو خدشہ ہو كہ پوليس دخل اندازى كرتے ہوئے تمہارى اولاد كو چھين لےگى تو آپ دونوں كو چاہيے كہ اسى شہر ميں كوئى عليحدہ گھر لے كر رہائش اختيار كريں جہاں خاوند بھى اپنى اولاد كو مل سكے اور ان كى ديكھ بھال كر سكے، كيونكہ اگر آپ طلاق يافتہ بھى ہوں تو خاوند كو اولاد سے ملنے كا حق حاصل ہے، تو پھر ابھى تو آپ اس كى بيوى ہيں اس حالت ميں كيا حكم ہوگا.
اور اگر ممكن ہو سكے تو آپ اسى شہر ميں اپنے گھر والوں والدين كے ساتھ يا پھر اپنے سسرال والوں كے ساتھ رہائش ركھ ليں، تا كہ زدكوب كرنے كا خطرہ كم ہو جائے، اور وہ آپ پر زيادتى نہ كر سكے تو يہ بہتر ہے چاہے كچھ دير كے ليے وقتى طور پر ہى ہو تا كہ يہ يقين كيا جا سكے كہ تمہارے مابين حسن معاشرت پيدا ہو چكى ہے اور تعلقات صحيح ہو گے ہيں.
اور اگر خاوند اپنے اسے رويہ پر قائم رہے اور ظلم و زيادتى كرتے ہوئے مارے تو آپ كے ليے طلاق يا خلع لينا جائز ہے، طلاق اس حالت ميں لينا ممنوع ہے جب كوئى شرعى يا حسى سبب نہ ہو.
اور اگر آپ اس حال ميں ہى باقى رہنا پسند كرتى ہيں تو آپ كو اس كا حق استمتاع اور ہم بسترى كا حق ادا كرنا ہوگا اگر وہ چاہے تو آپ اسے روك نہيں سكتي، ليكن اس سے احتياط كريں كہ آپ مستقل طور پر اس كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں رہنے كا خطرہ مول نہ ليں جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .