"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
انسان کا اپنی زندگی میں قبر کی جگہ خریدنا جائز امور میں سے ہے، جیسے کہ امام
احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان اپنی قبر کی جگہ خرید لے، اور اس میں دفنانے
کی وصیت کر جائے، یہ عمل عثمان رضی اللہ عنہ ، عائشہ ، اور عمر بن عبد العزیز رضی
اللہ عنہم نے کیا تھا" انتہی
"المغنی" (3/443)
اور ایسے حالات میں قبر کی خریداری مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب انسان کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں قبرستان بہت کم ہیں، یا قبرستان کیلئے جگہ وقف کرنے میں لوگ بخل سے کام لیتے ہیں، جیسے کہ کچھ علاقوں میں ایسی صورت حال کا سامنا ہے، یا اس جگہ پر ضرورت مند لوگوں کیلئے قبرستان وقف نہیں ہے۔
اگرچہ یہ کام جائز ہے، لیکن مستحب نہیں ہے، کیونکہ انسان کو یہ نہیں
معلوم کہ وہ اس دنیا میں کب تک رہے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا
تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ
ترجمہ: اور کسی جان کو یہ نہیں معلوم کہ کل اس نے کیا کرنا ہے، اور نہ ہی یہ معلوم
ہے کہ کس جگہ اس نے مرنا ہے۔ [لقمان : 34]
چنانچہ قبر کی جگہ خریدنے پر عمرے کو مقدم کرنا افضل اور بہتر ہے، کیونکہ شریعت نے عمرہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے، بلکہ کثرت سے عمرے کرنے کا شوق پیدا کیا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (حج و عمرہ پے در پے کرو، کیونکہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو ایسے مٹاتے ہیں، جیسے بھٹی لوہے کا زنگ مٹاتی ہے) نسائی: (2630) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ": (1200) میں اسے صحیح کہا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دوسرا عمرہ پہلے عمرے تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے) بخاری: (1773) مسلم: (1349)
نیز اس کے ساتھ مسجد الحرام میں نمازیں ، طواف، اور مقدس مقامات کی زیارت کرنے کا جو موقع ملتا ہے ، یہ سب چیزیں قبر کیلئے جگہ خریدنے کیساتھ عمرہ موازنہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہنے دیتیں!!
چنانچہ اگر آپ نے پہلے عمرہ نہیں کیا ہوا ، تو پھر اس صورت میں عمرہ مقدم کرنا واجب ہے، کیونکہ عمرہ بھی حج کی طرح واجب ہے، لہذا عمرے کو قبر کی جگہ خریدنے کے عذر کی بنا پر مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (82184) اور (39524) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.