"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
زمین پر زکاۃ اسی وقت ہوتی ہے جب زمین بیچنے کیلئے خریدی جائے۔
چنانچہ جو زمین ذاتی رہائش یا کرائے پر دینے کیلئے مکانات کی تعمیر کیلئے مختص ہو
اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہوتی ۔
جبکہ ایسی زمین جسے فروخت کرنے کیلئے خریدا گیا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہے، چنانچہ
سال مکمل ہونے پر اس کی [موجودہ]قیمت میں سے 2.5٪ زکاۃ ادا کی جائے گی۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (38886) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
زیر تعمیر مکان کی زکاۃ کے بارے میں یہ ہے کہ: اس میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، الّا کہ آپ اسے تعمیر کرنے کے بعد فروخت کرنا چاہیں، اور اس سے منافع کمانا مقصود ہو، تو پھر سال مکمل ہونے کے بعد موقع پر موجودہ حالت میں مکان کی قیمت لگائی جائے گی، اور زکاۃ کا حساب لگایا جائے گا، اور پھر مکان فروخت ہونے کے بعد اسکی زکاۃ ادا کردی جائے گی۔
اور اگر یہ زیر تعمیر مکان ذاتی رہائش یا کرائے پر دینے کیلئے ہے تو اس پر زکاۃ نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"جو مکانات رہائش کیلئے مختص ہیں، بیچنے کیلئے نہیں ہیں، ان میں زکاۃ نہیں ہے، اور
جو مکانات کرائے پر دینے کیلئے ہیں تو ان کے کرائے میں سے بچی ہوئی رقم پر سال مکمل
ہونے اور نصاب پورا ہونے کی شکل میں زکاۃ واجب ہوگی، کرائے پر دئے جانے والے مکانات
کی قیمت پر زکاۃ نہیں ہوگی، اور جو مکانات فروخت کرنے کیلئے مختص ہوں تو ایک سال
مکمل ہونے کے بعد انکی قیمت پر ہر سال زکاۃ واجب ہوگی"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (9 /335)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"سامان تجارت، یعنی وہ سامان جسے فروخت کرنے کیلئے رکھا گیا ہے، اس سارے سامان کی
سال کے آخر میں قیمت لگائی جائے گی، اور اسکی مجموعی قیمت میں سے چالیسواں حصہ
یعنی: 2.5٪ زکاۃ کی مد میں ادا کیا جائے گا، چاہے اسکی قیمت [مارکیٹ میں] سامان کی
اصلی قیمت والی ہو، یا کم /زیادہ ہو [اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا]۔
سامان تجارت میں یہ چیزیں بھی شامل ہے: فروخت کیلئے خریدی گئی زمین، عمارتیں، کاریں،
پانی کیلئے پمپ، وغیرہ تمام سامان جو فروخت کیلئے رکھا گیاہے۔
جبکہ ایسی عمارتیں جنہیں کرائے پر دیا جاتا ہے، فروخت نہیں کیا جاتا، تو انکے کرائے
پر زکاۃ سال گزرنے کے بعد واجب ہوگی، لیکن ان عمارتوں کی قیمت پر زکاۃ نہیں ہے،
کیونکہ یہ عمارتیں فروخت کرنے کیلئے نہیں ہیں "انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (14 /234)
سوم:
مسجد کی تعمیر مکمل کرنے کیلئے زکاۃ کی رقم لگانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ زکاۃ کی
تعمیر کیلئے محدود مصارف ہیں جن میں مسجد کا ذکر نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سےپوچھا گیا:
"ایسی مسجد کی تعمیر مکمل کرنے کیلئے زکاۃ کی رقم لگانا کیسا ہے جو بالکل مکمل ہونے
کے قریب ہے، لیکن تعمیراتی کام[رقم کی عدم موجودگی کیوجہ سے] رک چکاہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"تمام علمائے کرام کے ہاں یہ بات معروف ہے، جو کہ اکثر اور جمہور علمائے کرام کی
رائے ہے، اور یہ سلف صالحین سے اجماع کی طرح ہے، وہ یہ کہ: زکاۃ مساجد کی تعمیر،
اور کتب وغیرہ خریدنے میں صرف نہیں کی جاسکتی،بلکہ زکاۃ کیلئے آٹھ مصارف ہیں، جنکا
ذکر سورہ توبہ کی آیت [نمبر 60]میں ہوا ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: فقراء، مساکین،
زکاۃ جمع کرنے والے افراد، جنکی تالیف قلبی مقصود ہو، غلام آزاد کروانے کیلئے، چٹی
بھرنے والوں کیلئے، فی سبیل اللہ، اور مسافروں کیلئے، "فی سبیل اللہ"سے مراد جہاد
ہے، اہل علم کے ہاں یہی معروف ہے، چنانچہ مصارف زکاۃ میں مساجد کی تعمیر، مدارس کی
تعمیر، اور سڑکیں بنانا شامل نہیں ہے۔"انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (14 /294)
مزید کیلئے سوال نمبر: (13734) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.