"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: میں 27 سالہ نوجوان ہوں اور مجھے 6 سال سے اعصابی بیماری لاحق ہے، میں پہلے کوئی کام بھی نہیں کر سکتا تھا، میرے والد صاحب ہی محنت مزدوری کر کے مہنگی ادویات خریدتے تھے، میں نے اپنے لیے کام تلاش کیا لیکن مجھے صرف ایک ہی کام ملا کہ میں شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک بطور سکیورٹی گارڈ کام کروں؛ اس طرح مجھے اپنی ادویات کی خریداری میں معاونت ملے، میں نے اس بارے میں اپنے معالج سے رجوع کیا تو انہوں نے مجھے رات کی بجائے دن کے وقت تین مختلف اوقات میں دوا استعمال کرنے کا مشورہ دیا؛ کیونکہ دوا استعمال کرنے سے نیند آتی ہے، میں اس سال رمضان کے روزے بھی رکھنا چاہتا ہوں، میری آپ سے گزارش ہے کہ میری واضح طور پر رہنمائی کریں اور کیا مجھ پر روزے رکھنا واجب ہے؟
الحمد للہ.
اول:
ہم عظمت والے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں جو کہ عرش کریم کا پروردگار بھی ہے کہ آپ کو جلد از جلد شفا یاب فرمائے۔
دوم:
بیمار شخص رمضان میں روزے چھوڑ سکتا ہے، پھر جب شفا یاب ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینا واجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اور جو کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام سے گنتی پورے کرے، اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی فرمانا چاہتا ہے تنگی نہیں فرمانا چاہتا۔[البقرة:185]
سوم:
آپ دن کے وقت اپنی طبیعت کے مطابق کام تلاش کریں تو اس طرح آپ رات کے وقت بھی دوا لے سکیں گے اور اپنی دونوں مصلحتیں حاصل کر لیں گے، تاہم اگر آپ کو کام صرف کے اوقات میں ہی ملے اور آپ رات کے وقت دوا اس لیے نہ لے سکیں کہ دوا غنودگی پیدا کرتی ہے تو اس صورت میں دن کے وقت دوا کھا لیں، اور یہ آپ کیلیے روزہ چھوڑنے کا مقبول عذر بن جائے گا۔
لیکن اگر آپ صرف ماہ رمضان میں کام سے چھٹی کر لیں اور پھر ماہ رمضان مکمل ہونے کے بعد دوبارہ سے ڈیوٹی پر جانا شروع کر دیں تو یہ زیادہ بہتر رہے گا، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ایک ماہ کی چھٹی کرنے پر آپ کو ملازمت سے ہاتھ مت دھونے پڑھیں۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (65871) کے جواب کا مطالعہ کریں۔
علامہ ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فصل کی کٹائی ، مکان کی تعمیر چاہے اپنے لیے ہو یا کسی کیلیے رضا کارانہ طور پر ہو یا اجرت کے بدلے میں ہو ۔۔۔ اور رات کے وقت کام کرنا ممکن نہ ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔۔۔اور اگر بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کیلیے ذریعہ معاش بند ہونے کا خدشہ ہو تو تب بھی اس کیلیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن اس اجازت کو بقدر ضرورت ہی استعمال کیا جائے گا" انتہی
"تحفة المحتاج" (3/430) مختصراً
مطلب یہ ہے کہ: اگر روزہ رکھنے سے بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلیے ذریعہ معاش معطل ہونے کا خدشہ ہو تو وہ روزے نہ رکھے، لیکن بقدر ضرورت ہی روزے چھوڑے۔
اس بنا پر اگر آپ کیلیے صرف ماہ رمضان میں بھی ملازمت سے چھٹی کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ روزے چھوڑ سکتے ہیں۔
اس کے بعد آپ کو لاحق بیماری سے شفا یابی کی امید ہو تو بعد میں ان روزوں کی قضا دیں، بشرطیکہ قضا دینا آپ کیلیے مشقت کا باعث نہ ہو۔
اور اگر معالجین کے مطابق بیماری ختم نہیں ہوتی تو پھر آپ کے ذمہ ان روزوں کی قضا بھی نہیں ہے، اس کیلیے آپ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔
واللہ اعلم.