"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
یہ بات کہنے کا کیا حکم ہے کہ : "میں اپنی تقدیر خود بناتا ہوں"؟
الحمد للہ.
تقدیر پر ایمان؛ ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا جبریل علیہ السلام کے ایمان کے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا تھا: (تم اللہ تعالی پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔)
تقدیر کا مطلب: ہر چیز کے بارے میں اللہ تعالی کا درست تخمینہ جو اللہ تعالی نے پہلے سے لگایا ہوا ہے ، اللہ تعالی کو علم ہے کہ فلاں کام فلاں وقت میں رونما ہو گا، اس کی کیفیت بھی اللہ تعالی کو معلوم ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالی کا ان امور کو احاطہ تحریر میں لانا، پھر اسے رونما ہونے کا اذن دینا اور پھر اس چیز کا اسی انداز سے رونما ہونا جس انداز سے اس کے لیے رونما ہونا مقدر میں لکھا ہے۔ مزید کے لیے دیکھیں:
"القضاء والقدر" از ڈاکٹر عبد الرحمن بن صالح المحمود صفحہ: 39
چنانچہ تقدیر پر ایمان کی بنیاد چار چیزوں پر ایمان لانے پر قائم ہے:
اول: علم :-
یعنی اللہ تعالی پہلے سے ہی جانتا ہے کہ مخلوق کیا عمل کرے گی۔
دوم: کتابت:-
یعنی اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کی تقدیریں لوح محفوظ میں لکھ دی ہیں۔
سوم: مشیئت:-
یعنی جس چیز کا اذن اللہ تعالی دے وہ ہو جاتا ہے اور جس چیز کی اجازت نہ دے وہ نہیں ہوتا، چنانچہ آسمانوں اور زمین میں کسی قسم کی حرکت اور ٹھہراؤ اللہ تعالی کی مشیئت سے ہی ہوتا ہے۔
چہارم: خلق اور تکوین:-
یعنی اللہ تعالی ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، بندوں کے افعال بھی اسی میں شامل ہیں، بندے اپنے افعال کے حقیقی عامل ہیں اور اللہ تعالی بندوں کا بھی خالق ہے اور ان کے افعال کا بھی خالق ہے۔
تو جو شخص ان چار امور پر ایمان رکھتا ہے اسی کا تقدیر پر ایمان ہے۔
قرآن کریم نے یہ چاروں امور متعدد آیات میں بیان کیے ہیں، جیسے کہ علم اور درست تخمینے کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
ترجمہ: یقیناً ہم نے ہر چیز درست تخمینے کے ساتھ پیدا کی ہے۔[القمر:49]
کتابت کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ
ترجمہ: اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، وہ بر و بحر کی ہر چیز کو جانتا ہے، کوئی بھی پتہ اس کے علم کے بغیر نہیں گرتا، نہ ہی کوئی دانا زمین کے اندھیروں میں، نہ ہی کوئی تر اور نہ ہی کوئی خشک دانا سب ہی کتاب مبین میں لکھے ہوئے ہیں۔[الانعام: 59]
خلق اور تکوین کے متعلق فرمایا:
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
ترجمہ: زمین میں اور تمہارے نفسوں میں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ کتاب میں پہلے سے موجود ہے قبل ازیں کہ ہم اسے پیدا کریں، بیشک یہ اللہ تعالی پر بہت آسان ہے۔[الحديد :22]
مشیئت اور اذن کے بارے میں فرمایا:
وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور جب تک اللہ رب العالمین کی مشیئت نہ ہو تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ [التکویر: 29]
اسی طرح صحیح مسلم: (2653)کی حدیث مبارکہ میں ہے جو کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے لکھ دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔)
تو اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی شخص اس تقدیر الہی سے باہر نہیں نکل سکتا چہ جائیکہ خود بنانے کا دعوی کرے!
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ معاملات پہلے سے ہی مقدر میں لکھے جا چکے ہیں لیکن یہاں بندے کی مرضی اور اختیار بھی ہے، اسی لیے بندے کی کارکردگی پر اسے ثواب یا عقاب ہو گا، البتہ بندے کی مرضی اللہ تعالی کی مرضی کے تحت ہے، اس لیے کائنات میں اللہ تعالی کے ارادے کے بغیر کوئی چیز رونما نہیں ہو سکتی، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور جب تک اللہ رب العالمین کی مشیئت نہ ہو تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ [التکویر: 29]
تو یہاں اللہ تعالی نے بندے کے لیے مرضی اور چاہت کو ذکر کیا ہے لیکن اسے اللہ تعالی کی مرضی اور مشیئت کے تابع قرار دیا ہے۔
اس بنا پر:
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں اپنی تقدیر خود بناتا ہوں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی تقدیر کے تابع نہیں ہے ، یا وہ تقدیر بدل سکتا ہے یا تقدیر سے باہر بھی جا سکتا ہے، یا اس کا مطلب ہے کہ وہ تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا، تو ان تمام صورتوں میں یقیناً وہ شخص غلط اور واضح گمراہی میں ہے؛ کیونکہ اس کی یہ بات ایمان کے اس عظیم رکن پر یقین رکھنے سے بالکل متصادم ہے۔
اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ بندے کے پاس بھی اختیار اور مرضی ہے، وہ جیسے چاہے کرتا ہے، بندے کو کسی بھی کام کے کرنے میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ مجبور محض ہے، یا اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی ایسی لکھی ہوئی چیز پر بھروسا نہیں کرتا جس کا اسے ابھی تک علم نہیں ہے بلکہ وہ اپنے تئیں مکمل محنت اور کوشش کرتا ہے تو پھر یہ مفہوم بالکل درست ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ترجمہ: اور کہہ دیجیے حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کر لے۔ [الکھف:29]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ
ترجمہ: اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ہیں۔ [البلد: 10] یعنی: ہم نے انہیں خیر اور شر دونوں ہی راستے دکھا دئیے ہیں۔
تاہم اس شخص کا اسلوب درست نہیں ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ تقدیر پر ایمان نہیں رکھتا، اس لیے اس جملے سے بچنا چاہیے اور اچھے اسلوب میں یہ چیز بیان کرے اور واضح کرے کہ اس کا تقدیر پر مکمل ایمان ہے۔
واللہ اعلم