"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرے پاس کچھ رقم تھی جو کہ زکاۃ کے نصاب سے زیادہ تھی، ابھی سال نہیں گزرا تھا کہ میں نے اس رقم سے کاروبار کے لیے دکان کھول لی، تو کیا ایسی صورت میں مجھ پر زکاۃ لازم ہو گی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
الحمد للہ.
اول:
جب دولت زکاۃ کے نصاب کے برابر ہو جائے لیکن ابھی سال نہ گزرے، سال پورا ہونے سے پہلے کاروبار کے لیے سامان خرید لے تو جیسے ہی دولت کے نصاب کے برابر ہونے کا سال پورا ہو گا اس پر زکاۃ دینا لازم ہے، لہذا کاروبار کے لیے سامان کی خرید سے زکاۃ کا مالی سال شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ جب سے اس کے پاس نصاب کے برابر دولت جمع ہوئی ہے اس وقت سے سال شمار کرے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت نصاب کے برابر دولت کے عوض مال تجارت ملکیت میں آئے تو اس کی زکاۃ کا سال اس دن سے شمار ہو گا جب سے وہ نصاب کے برابر دولت کا مالک بنا۔" ختم شد
ماخوذ از: المنهاج مع حاشية "مغنی المحتاج" (2/107)
اسی طرح امام بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت سال کے دوران مال نصاب سے کم ہو جائے، یا سامان تجارت فروخت [کر کے اسے خرچ کر لے] اور مال نصاب سے کم ہو جائے تو زکاۃ کا مالی سال ختم ہو جائے گا، لیکن اگر اپنے سامان تجارت کو کسی اور سامان تجارت سے بدل لے یا نقد رقم کے بدلے فروخت کر لے تو پھر ایسی صورت میں سال منقطع نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہاں مال حقیقت میں مالک کے پاس ہی موجود ہے، ختم نہیں ہوا"
معمولی تصرف کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا، ماخوذ از: "كشاف القناع" (2/178)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (32715 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
مال تجارت کی زکاۃ دینے کا طریقہ کار یہ ہے کہ سال پورا ہونے پر آپ اپنے پاس مال کا تخمینہ مارکیٹ کے مطابق موجودہ قیمت فروخت پر لگائیں، اور اس میں سے 40 واں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکاۃ نکال دیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22449 )کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم