"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالی توبہ، مصائب،گناہوں کو مٹانیوالی نیکیوں، اور دیگر اسباب کے ذریعے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
" سچی توبہ، توحیدِ خالص، گناہ مٹانیوالی نیکیوں، گناہوں کو مٹانے والی تکالیف، اور موحد لوگوں کیلئے سفارشی حضرات کی سفارش سے گناہوں کے آثار مٹ جاتے ہیں، اور اگر پھر بھی باقیماندہ گناہوں کی وجہ سے عذاب ملے تو عقیدہ توحید کی وجہ سے وہ آگ سے باہر آسکتا ہے" انتہی
"هداية الحيارى" ص 130
گناہوں کو مٹانے والی نیکیوں میں وضو، پانچوں نمازیں، حج اور عمرہ شامل ہیں، ان سب سے بڑی نیکی : عقیدہ توحید ہے، اور سب سے بڑی بدی: کفر و شرک ہے۔
اور "لا الہ الا اللہ"واقعی سب سے بڑی نیکی ہے، اور ایمان کی شاخوں میں سب سے اعلی شاخ ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان کے ستر یا ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں، افضل ترین شعبہ لا الہ الااللہ کہنا ہے، اور سب سے کم ترین درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے)
بخاری (9) ، اورمسلم (35) نے اسے ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
اسی طرح صحیح مسلم کی روایت (2687) کے مطابق ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: اور جو کوئی مجھے گناہوں سے زمین بھر کر ملے، اور وہ شرک نہ کرتا ہو، تو میں زمین بھر کر مغفرت کیساتھ اس سے ملوں گا)
اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (موسی علیہ السلام نے کہا: یارب! مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دے جس کے ذریعے تیرا ذکر کروں، اور تجھے پکاروں، اللہ نے فرمایا: موسی! کہو: لا الہ الا اللہ، تو موسی علیہ السلام نے کہا: یا اللہ! تیرے سارے بندے یہی کہتے ہیں، تو اللہ تعالی نے فرمایا: لاالہ الا اللہ کہو، تو موسی علیہ السلام نے کہا: یا رب! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ، میں کچھ ایسا چاہتا ہوں جو صرف میرے لئے ہو، تو اللہ تعالی نے فرمایا: موسی! اگر میرے علاوہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اور ان کے مکین سب کے سب ایک پلڑے میں ہوں، اور دوسے پلڑے میں لا الہ الا اللہ ہو تو کلمہ توحید کا پلڑا پھر بھی بھاری ہوگا)
اسے ابن حبان (6218)، اور حاكم (1936) نے صحیح قرار دیتے ہوئے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ حاکم ہی کے ہیں، اور ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی صحت پر حاکم کی موافقت بھی کی ہے، جبکہ حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" (11/ 208) میں کہا ہےکہ:"اس روایت کو نسائی نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے"
اس حدیث میں کلمہ توحید کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر بندہ عقیدہ توحید اور اللہ کیلئے اخلاص میں کامل ہو جائے، پھر توحید کی شرائط پوری کرنے کیلئے دل، زبان، اور اعضاء کو جوت دے، یا مرتے وقت ہی صرف زبان اور دل سے شرائط پوری کرنے کی کوشش کرے، تو یہ عمل اس کے سابقہ سارے گناہ مٹانے کا سبب بن جاتا ہے، اور اسے کلی طور پر جہنم میں جانے نہیں دے گا۔
چنانچہ جس شخص نے کلمہ توحید کو اپنے دل میں سمو لیا، اور محبت، تعظیم، جلال، ہیبت، خشیت، امید،اور توکل ہر اعتبار سے غیر اللہ کو دل سے نکال دیا، تو اسکے سارے کے سارے گناہ جل کر بھسم ہوجائیں گے، چاہے سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گناہ نیکیوں میں بدل جائیں، ۔۔۔ لہذا توحید ہی گناہوں کیلئے اکسیرِ اعظم ہے، اگر گناہوں کے پہاڑوں پر ایک ذرہ بھی توحید کا رکھ دیا جائے تو سب گناہوں کو نیکیوں میں بدل کر رکھ دے" انتہی
" جامع العلوم والحكم " (2/ 417)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس عظیم کلمہ کے قائلین درجہ بندی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور یہ درجات انکے دلوں میں کلمہ کےمعانی کے مطابق ہوتے ہیں۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس قدر انسان کی توحید عظیم ہوگی، اللہ تعالی کی اسکے لئے مغفرت بھی اسی طرح کامل ہوگی، چنانچہ جو شخص اللہ تعالی کو اس حال میں ملے کہ اس نے شرک نہ کیا ہوا ہو، تواسکے سارے کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، چاہے جتنے بھی ہوں،اور اسے عذاب بھی نہیں ہوگا۔
اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ اہل توحید میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا، بلکہ بہت سے موحد اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے، اور اپنے اپنے جرم کے مطابق سزا پائیں گے، پھر انہیں جہنم سے نکالا جائے گا، اور ہماری پہلی اور دوسری دونوں باتوں میں مذکورہ بالا تفصیل سمجھنے والے کیلئے کسی قسم کا کوئی اختلاف سامنے نہیں آئے گا۔
یہاں ہم اس مسئلہ کی اہمیت اور ضرورت کے پیشِ نظر کچھ مزید وضاحت بھی کرنا چاہیں گے کہ : لا الہ الا اللہ کی شعاعیں گناہوں کے گرد و غبار اور سیاہ بادلوں کی وجہ سے ماند پڑ جاتی ہیں، چونکہ ان شعاعوں کی قوت اور کمزوری کا انحصار لا الہ الا اللہ کے قائل میں موجود قوت ِ یقین اور کمزوری پر ہوتا ہے، اس لئے ان شعاعوں میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، ان شعاعوں کی قوت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔ کلمہ توحید کا نور جس قدر طاقتور ہوگا یہ نور اتنی ہی طاقت کے ساتھ شبہات، شہوات کو بھسم کرکے رکھ دے گا، حتی کہ اس درجہ تک پہنچ جائے گا کہ کوئی شبہ، شہوت، یا گناہ اسکا سامنا ہی نہیں کرپاتا، اور جل کر راکھ ہوجاتا ہے، توحید کے سچے متوالے کا یہی حال ہوتا ہے، جس نے کبھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہوتا" انتہی
" مدارج السالكين " (1/ 338)
دوم:
فرمانِ باری تعالی: ( وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ ) اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردیتا ہے۔ الطلاق/2
اس آیت کریمہ میں متقی افراد کیلئے بہت بڑا وعدہ ہے، اور متقی شخص وہ ہے جو واجبات کی ادائیگی کرےاور حرام کاموں سے اجتناب کرے، اور اس میں یہ لوگ بھی شامل ہیں:
- جو گناہ کرنے کے بعد توبہ اور اللہ سے رجوع کرلے۔
- وہ شخص جس نے دوبارہ گناہ کیا اور پھر سے توبہ کرلی، کیونکہ تقوی کا مطلب ہی یہ ہے کہ : احکامات پر عمل اور ممنوعہ کاموں سے اجتناب، یہی وجہ ہے کہ سچی توبہ کرنے والے کی برائیاں مٹا کر نیکیوں سے بدل دی جاتی ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً [68]يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً [69] إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً )
ترجمہ: اور وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا[68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگناکردیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ [69] ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔الفرقان/68- 70
اور متقی شخص کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو، اگر ایسا ہوتا تو بہت سے لوگ اس مقام سے محروم ہوجاتے، کیونکہ آدم کا ہر بیٹا خطا کار ہے، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کر لیں، چنانچہ جس نے گناہ کے بعد توبہ کرلی، تو وہ ایسے لوگوں میں سے ہے جن کیلئے آیت میں مذکورہ وعدہ کی امید کی جاسکتی ہے، کیونکہ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ انسان نیک اعمال کے ساتھ اپنے آپ کو مشغول رکھے۔
واللہ اعلم .