"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اللہ کے فضل سے میں نے اس سال دو عمرے کئے ہیں پہلا شعبان میں اور دوسرا رمضان میں، لیکن دوسرا عمرہ میں نے اپنے فوت شدہ والد صاحب کی طرف سے کیا ، تو کیا میرے لئے رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب لکھا جائے گا؟
الحمد للہ.
علمائے کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ کیا کسی کی طرف سے حج و عمرہ کرنے والے شخص کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا "منوب عنہ" -جسکی طرف سے حج یا عمرہ کیا گیا ہے -کو ملے گا؟ اس بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول:
دونوں کو برابر اجر و ثواب ملے گا، اس لئے دونوں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین: (جو شخص فسق و بے حیائی سے دور رہتے ہوئے حج کرے وہ ایسے واپس آتا ہے جیسے آج اسکی ماں نے اسے جنم دیا ہو) اسی طرح فرمان نبوی: (رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے) میں داخل ہونگے۔
اس موقف کو اپنانے والے اہل علم گذشتہ احادیث کے عموم کو دلیل بناتے ہیں، اور ویسے بھی ثابت شدہ فرمان نبوی ہے: (جو کسی شخص کی نیک کام کی جانب راہنمائی کرے تو اسے بھی نیکی کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے) تو جو شخص کسی کی نیابت کرتے ہوئے خود کام کر رہا ہے اسے تو بالاولی مکمل اجر ملنا چاہئے۔
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"داود نے سعید بن مسیب سے کہا: اے ابو محمد! حج کرنے والے کو ثواب ملے گا یا حج کروانے والے کو؟ تو سعید نےجواب دیا: یقینا اللہ تعالی دونوں کو ہی اجر سے نوازے گا" ابن حزم کہتے ہیں : "سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے واقعی سچ کہا" انتہی
"المحلى" (7/61)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص میت کی طرف سے حج کرے تو اسے بھی حج کا اجر ملے گا، بشرطیکہ وہ کسی معاوضے کا مطالبہ نہ کرے، ابو داود " مسائل الإمام أحمد " روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک آدمی نے امام احمد سے کہا: "میں اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تو کیا مجھے بھی حج کا اجر ملے گا؟ "تو امام احمد نے کہا: "ہاں ملے گا، تم اپنی والدہ کا قرض چکا رہے ہو"انتہی
یہی بات طبرانی کی معجم الاوسط میں ابو ہریرہ سے بیان کردہ روایت سے واضح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے میت کی طرف سے حج کیا، تو حج کرنے والے کو میت کے برابر ثواب ملے گا، جو شخص کسی روزہ دار کیلئے افطاری کا انتظام کرے تو افطاری کروانے والے کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور جو شخص نیکی کی دعوت دے تو اسے بھی نیکی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا) "انتہی
"فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ" (5/184) – ترقيم الشاملة –
لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث (جس شخص نے میت کی طرف سے حج کیا، تو حج کرنے والے کو میت کے برابر ثواب ملے گا۔۔۔)کو ضعیف قرار دیا ہے۔
دیکھیں: "سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة "
دوسرا قول:
احادیث میں ذکر شدہ گذشتہ فضائل صرف اس کیلئے ہیں جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے، جبکہ حج کرنے والے کو اپنے بھائی کی طرف سے حج کرنے کی بنا پر احسان کا اجر ملے گا، اسی طرح ان عبادات کا بھی اجر ملے گا جو اس نے اعمالِ حج سے ہٹ کر سر انجام دیں، مثال کے طور پر حرم مکی میں نمازیں ، ذکر و اذکار وغیرہ۔
چنانچہ "فتاوى اللجنة الدائمة" (11/77-78) میں ہے کہ:
"جو شخص کسی کی طرف سے حج یا عمرہ اجرت لیکر یا بغیر اجرت لئے کرے تو حج یا عمرے کا ثواب اسی کو ملے گا جس کی طرف سے حج یا عمرہ کیا گیا، اور حج یا عمرہ کرنے والے کیلئے اسکی نیت اور اخلاص کی مناسبت سے ثوابِ عظیم کی امید کی جاسکتی ہے"انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا کسی کی طرف سے حج کرنے والا شخص بھی اس اجر وثواب کا مستحق ہوگا جو فرمانِ نبوی(جو شخص فسق و بے حیائی سے دور رہتے ہوئے حج کرے وہ ایسے واپس آتا ہے جیسے آج اسکی ماں نے اسے جنم دیا ہو) میں موجود ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اس سوال کا جواب اس بات پر مبنی ہے کہ: کیا اس شخص نے حج اپنے لئے کیا ہے یا کسی غیر کیلئے؟
جواب: اس شخص نے کسی کیلئے حج کیا ہے، اپنے لئے نہیں کیا، چنانچہ فرمانِ نبوی میں مذکور اجر نہیں پاسکے گا، کیونکہ اس نے کسی کی طرف سے حج کیا ہے، لیکن ان شاء اللہ اگر اسکی نیت اپنے بھائی کی بھلائی اور اسکی ضرورت پوری کرنی تھی تو اللہ تعالی اسے بھی ثواب سے نوازے گا" انتہی
"مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين" (21/34)
ایک اور مقام پر آپ رحمہ اللہ نے کہا:
"حج سے متعلق تمام کاموں کا اجر اس شخص کیلئے ہے جس کی طرف سے حج کیا گیا ہے، جبکہ نمازیں ، تلاوت قرآن اور طواف وغیرہ حج کے ارکان سے ہٹ کر اضافی اعمال کا ثواب حج کرنے والے کو ہی ملے گا، جس کی طرف سے حج کیا گیا ہے اسے نہیں ملے گا"انتہی
"الضياء اللامع من الخطب الجوامع" (2/478)
چنانچہ یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں مختلف فیہ ہے، اس بارے میں نصوص واضح نہیں ہیں، اور محتاط انداز سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ: اجر وثواب کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اسی معنی و مفہوم پر مشتمل دائمی فتوی کمیٹی کا ایک اور فتوی بھی ہے، وہ کہتے ہیں:
"حج کے بارے میں اندازے لگانا کہ کیا کسی کی طرف سے کیا گیا حج بالکل اسی حج کی طرح ہے جیسے اس نے اپنے لیا کیا تھا، یا اس کے اجر وثواب میں کچھ کمی بیشی ہے: تو یہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11/100)
واللہ اعلم .