"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نماز میں دعا کے مقامات دو قسم کے ہیں:
پہلی قسم:
نماز کے دوران ایسے مقامات جہاں دلائل میں خصوصی طور پر دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور وہاں دعا کرنا مستحب ہے، تو ایسے مقامات پر نماز پڑھنے والے کے لئے اپنی منشا کے مطابق لمبی دعا کرنا مستحب ہے، اس لیے اللہ تعالی سے اپنی من چاہی دعائیں کرے، دنیا اور آخرت کی جو چاہے خیر و بھلائی اللہ تعالی سے مانگے۔
دوسری قسم:
ایسے مقامات جن کا ذکر نماز نبوی کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اس طرح آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دعا کی ہے، لیکن اپنی دعا کو زیادہ لمبا نہیں کیا، نہ ہی ان مقامات کی دعا کے لئے تخصیص فرمائی، نہ ہی ان مقامات میں مطلق دعائیں مانگنے کی ترغیب دلائی ، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جگہوں میں خود مختصر اور چند جملوں میں دعا فرمائی، اور وہ چند جملے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول اور ثابت ہیں؛ تو ان مقامات میں مطلق دعا کی بجائے مخصوص نبوی اذکار کرنا ہی دعا ہے۔
ان مقامات میں سے سب سے پہلا مقام یہ ہے:
امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "باب ہے رکوع میں دعا کے بیان میں"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صاحب تتمہ کہتے ہیں: یہ دعا پڑھنا لازمی نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ کوئی بھی دعا مانگی جائے تو سنت طریقے پر عمل ہو جائے گا، تاہم جو الفاظ حدیث میں ذکر کیے گیے ہیں ان کا اہتمام کرنا افضل ہے" ختم شد
المجموع: (3/437)
دوران قیام تلاوت کرتے ہوئے بھی دعا کرنا ثابت ہے، احادیث میں دوران قیام دعا کا ذکر نفل نماز میں ہے، تاہم بعض اہل علم نفل نماز میں ذکر شدہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے فرائض میں دعا کی اجازت بھی دیتے ہیں۔
اس کی دلیل حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم : (کسی بھی رحمت والی آیت سے گزرتے تو وہاں رک کر اللہ سے رحمت مانگتے اور جہاں کہیں عذاب والی آیت سے گزرتے تو وہاں بھی رک کر اللہ کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے) اس حدیث کو ابو داود: (871) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
قنوت نازلہ [یعنی ناگہانی حالت میں کی جانے والی دعا]میں بھی دعا کرنا منقول ہے، تاہم یہ ہے کہ قنوت نازلہ میں ناگہانی حالت کی مناسبت سے دعا کی جاسکتی ہے، دیگر امور کے لئے بھی ضمنی طور پر دعا کرنے میں بھی امید ہے کہ کوئی حرج نہیں ہو گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دوران نماز جتنی جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا مانگنا ثابت ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ چھ جگہیں ہیں -پھر آخر میں دو مزید بھی ذکر کیں-:
پہلی جگہ: تکبیر تحریمہ کے بعد، اس کے متعلق صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ثابت ہے "اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ۔۔۔" الحدیث
دوسری جگہ: رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہونے کے بعد"مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ" کے بعد فرماتے اَللَّهُمَّ طَهِّرْنِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَالْمَاءِ الْبَارِدِ ۔۔۔
تیسری جگہ: رکوع کے دوران ، اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع اور سجدے میں کثرت سے فرمایا کرتے تھے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ [ترجمہ: یا اللہ! تو پاک ہے ہمارے پروردگار اپنی تعریف کے ساتھ، یا اللہ! مجھے بخش دے۔]) اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
چوتھی جگہ: سجدے کے دوران، یہاں پر سب سے زیادہ دعا پڑھنی چاہیے؛ کیونکہ یہاں دعا کرنے کا حکم ہے۔
پانچویں جگہ: دو سجدوں کے درمیان : اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ
چھٹی جگہ: تشہد میں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت اور قراءت کے دوران بھی دعا فرمایا کرتے تھے، دوران قراءت آپ رحمت والی آیت سے گزرتے تو رحمت مانگتے، اور جب عذاب والی آیت سے گزرتے تو عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے" ختم شد
فتح الباری: (11/132)
مذکورہ تمام جگہوں میں سے مطلق دعا کے لئے مؤکد ترین جگہ سجدے کی حالت اور آخری تشہد کے بعد ہے۔
جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز کا سجدہ یا تشہد دعا کے مقام ہیں" ختم شد
فتح الباری: (11/186) اسی طرح اسی کتاب کے: (2/318) کا بھی مطالعہ کریں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں دعا کا مقام سجدہ اور آخری تشہد میں سلام سے پہلے ہے" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (8/310)