"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہت سوچ بچارکے بعد میں شیطان کے متعلق یہ سوچتا ہوں کہ ، جب وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو پھر وہ شر والے افعال کيوں کرتا ہے ؟ ۔
انسان کو تو شیطان برے کام کرنے کا وسوسہ ڈالتا ہے تو پھر شیطان کو شر کا وسوسہ کون اور کیوں ڈالتا ہے ؟
کیا اسے اس بات کا علم نہیں کہ وہ آگ کااندھن بنے گا ؟
کیا وہ انسان کو ناپسند کرتا ہے ؟
اور کیا اسے معصیت اور احسان کرنے کا اختیار حاصل نہیں ؟
الحمد للہ.
الحمد اللہ
ابلیس اور اس کے علاوہ دوسرے سب جن وانس کو اختیار اور مشیئت حاصل ہے کہ وہ اطاعت کریں یا کہ معصیت جیسا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
اب جو چاہے ایمان لاۓ اور جو چاہے کفر کرے الکھف ( 29 )
اور دوسری جگہ پر فرمان باری تعالی ہے :
ہم نے تو اسے راہ دکھائ تو اب وہ خواہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا الدھر ( 3 )
اللہ تعالی نے ابلیس کو یہ حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کوسجدہ کرے تو اس نے تکبر کرتے ہوۓ سجدہ کرنے سے انکار کر کے کافروں میں سے ہوا تو اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا اور تاقیامت اس پر لعنت فرمادی ۔
اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :
اور جب ہم نے فرشتوں سے آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرنے کا کہا تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اس نے انکار اور تکبر کر کے کافروں میں سے ہوگیا البقرۃ ( 34 )
اور دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے کچھ اس طرح فرمایا :
چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا ، مگرابلیس نے نہ کیا اور اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت سے صاف انکار کردیا ، (اللہ تعالی نے ) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہے کہ تو نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت نہیں کی ، وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئ کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا اب تو اس جنت سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے ،اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت رہے گی الحجر ( 30 - 35 )
تو اس وقت ابلیس نےاللہ تبارک وتعالی سے مہلت اور تاخیر طلب کی کہ اسے قیامت تک مہلت دی جاۓ تو اللہ تعالی نے یہ مہلت دیتے ہوۓ فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
کہنے لگا اے میرے رب ! مجھے اس دن تک ڈھیل دے کہ جس دن لوگ دوبارہ اٹھاۓ جائيں گے ، اللہ تعالی نے فرمایا کہ اچھا تو ان ميں سے ہے جنہیں ڈھیل دی گئ ہے ایک وقت مقررہ دن تک الحجر ( 36 - 38 )
تو جب ابلیس کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ ھلاک ہوجانے والوں میں سے ہے تو اس نے اپنے تکبر اور اپنے رب کے ساتھ کفر کے باوجود اس بات کا عزم کرلیا کہ وہ اللہ تعالی کے بندوں میں سے جس پر وہ طاقت رکھے اسے گمراہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں شریک کرے گا ۔
تو اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے ابلیس کا قول نقل کرتے ہوۓ فرمایا :
ابلیس کہنے لگا اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لۓ معاصی اور گناہوں کو مزین اور خوب بنا کر پیش کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی ، سواۓ تیرے ان بندوں کو جو کہ منتخب کر لۓ گۓ ہیں الحجر ( 39 - 40 )
تو شیطان لوگوں کوگمراہ کرنے اورخراب کرنے پر حریص ہے تا کہ اس کے پیروکار اور اس کی عبادت کرنے والے زیاد سے زیادہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوں جو اس کے ساتھ اس کے ٹھکانہ ( جہنم ) تک جائيں ، تو ابلیس کو اس بات کا علم ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو وہ حسد وبغض اور بغاوت اورکفر عناد کی وجہ سے اس بات پر حریص ہے کہ سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جاۓ ۔
اور وہ آدم علیہ السلام کی اولاد انسان کو ناپسند کرتا اور ان سے دشمنی کرتا ہے اس لۓ کہ اسے اللہ تعالی کی رحمت سے دھتکارا اور اس پر لعنت ہی اس لۓ کی گئ ہے کہ اس نے انسانوں کے بات آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تو اسی لۓ اللہ تعالی نےاپنے بندوں کو اس سے ڈراتے ہوۓ فرمایا ہے :
یاد رکھو ! شیطان تمہارا دشمن ہے ، تم اسے دشمن ہی جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لۓ ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم میں جائيں فاطر ( 6 )
اور ابلیس اس بات کا محتاج ہی نہيں کہ اسے کوئ وسوسہ ڈالے کیونکہ وہ تو خود ہی ہرشر اور برائ کی جڑ اور منبہ ہے ۔
تو مومن شخص اپنے رب کی اطاعت اور اس کے دین پر استقامت اختیار کرکے شیطان کے شر اور ہتھکنڈوں سے نجات پا سکتا ہے کیونکہ شیطان ان لوگوں پر کوئ طاقت اور سلطہ نہیں رکھتا جو کہ مومن ہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
جب آّپ قرآن پڑھیں تو راندے ہوۓ شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو ، ایمان والوں اور اپنے رب پر توکل کرنے والوں پر اس کا مطلقا کوئ زور اور طاقت نہیں چلتی ، ہاں اس کا غلبہ اس کا غلبہ اور زور ان پر تو یقینا چلتاہے جو اسی سے رفاقت کریں اور دوستی لگائيں اورا سےاللہ تعالی کا شریک ٹھرائيں النحل ( 98 - 100)
واللہ تعالی اعلم .