"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
بیوی کیلئے اپنے خاوندسے کسی شرعی عذر کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی خاتون اپنے خاوند سے بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے)
اسے امام احمد (21874) ، ابن ماجہ (2055) نے روایت کیا ہے [حدیث میں مذکور عربی الفاظ]" في غير ما بأس "کا مطلب ہے کہ طلاق کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں (ماخوذ از:شرح سندی علی سنن ابن ماجہ) اور البانی نے اسے "إرواء الغليل" میں (2035) پر صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
بیان شدہ قصہ کے مطابق کہ آپکے خاوند نے پہلی طلاق دے دی، اور پھر رجوع کر لیا،اسکے بعد آپکے مطالبے پر انہوں نے دوبارہ طلاق دی، پھر آپکے مطالبے پر انہوں نے ایک بار اور طلاق دے دی؛ تو اس صورت میں دو طلاقیں تو قطعی طور پر ہو چکی ہیں، پہلی اور دوسری، اور آپکے خاوند کا یہ کہنا کہ "وہ تو اس نے آپکے کہنے پر طلاق کا لفظ بولا تھا، اور اسکا ارادہ طلاق کا نہیں تھا" اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب تک خاوند کو طلاق کے لفظ کا معنی معلوم ہو اور اس پر کسی نے زبردستی بھی نہ کی ہوتو طلاق واقع ہوجاتی ہے چاہے طلاق کا ارادہ ہو یا نا ہو، اس کا تفصیلی بیان فتوی نمبر (171398) پر گزر چکا ہے۔
جبکہ دوسری طلاق کے بعد اگر خاوند نے رجوع نہیں کیا اور تیسری طلاق دے دی تو تیسری طلاق کے واقع ہونے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تو کچھ [اس حالت میں] تیسری طلاق ہونے کے قائل نہیں ہیں، اور راجح بھی یہی ہے کہ [اس حالت میں] تیسری طلاق نہیں ہوتی، جیسا کہ فتوی نمبر (126549)پر پہلے گزر چکا ہے۔
چنانچہ اگر آپکے خاوند نے دوسری طلاق دینے کے بعد رجوع کیا اور پھر تیسری طلاق دی تو یہ تیسری طلاق متفقہ طور پر واقع ہو گی۔
سوم:
آپکا سوال کہ جو کچھ ہوا ہے طلاق ہے یا خلع؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ یہ طلاق ہے؛ کیونکہ اس میں لفظِ طلاق استعمال کیا گیا ہے، اور عوض بھی نہیں ہے۔
پہلے ایک فتوی نمبر (126444) پر گزر چکا ہے کہ خلع کیلئے عوض کا ہونا ضروری ہے، چنانچہ اہل علم کے راجح موقف کے مطابق میاں بیوی کے درمیان ہر وہ جدائی جس میں عوض ہو وہ خلع ہی کہلائے گا، چاہے لفظِ طلاق ہی سے کیوں نہ ہو۔
واللہ اعلم .