"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چوری شدہ چیزیں ہوں یا کسی سے قرض لی ہوئی رقم انہیں واپس کرنا ہو تو ان کا حساب کیسے لگایا جائے گا؛ کیونکہ اس وقت کرنسی کی مالیت بہت گر چکی ہے جس وقت رقم قرض یا چیز چوری کی تھی اس وقت اور آج کے کرنسی ریٹ میں بہت فرق آ چکا ہے، یعنی اگر 1970 کے 100 دینار ہوں تو وہ آج کل کے 1000 دینار بنتے ہیں۔
الحمد للہ.
اول:
اگر کسی شخص نے کوئی چیز ادھار لی تھی اور وہ چیز ذاتی طور پر مالیت رکھتی تھی اور اس کا مثل بھی آج موجود ہے ، مثلاً: ایسی چیزیں جنہیں ماپ یا تول کر دیا اور لیا جاتا ہے ، ایسے سونا یا چاندی وغیرہ تو اہل علم کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ادھار لی ہوئی چیز کا مثل واپس کرنا لازم ہے، اس کی مالیت کے کم یا زیادہ ہونے کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (6/441)میں کہتے ہیں:
"کوئی چیز ادھار لینے والا شخص اسی چیز کی مثل دے گا اگر اس کی مثل موجود ہو، چاہے اس کا ریٹ کم ہو جائے یا زیادہ، یا اپنی اسی حالت میں ہو۔" ختم شد
آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"ایسی چیز جسے ماپ یا تول کر لیا یا دیا جاتا ہے تو ان چیزوں کو ادھار لینے والا اس کی مثل ہی ماپ یا تول کر دے گا۔ اس بارے میں ہمیں کسی کے اختلافی موقف کا علم نہیں ہے۔" ختم شد
" المغنی" (6/434)
تو یہی حکم چوری شدہ اور غصب شدہ چیزوں کا ہو گا کہ ان چیزوں کی مثل واپس کی جائیں گی اور ان کی قیمت میں آنے والی تبدیلی کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔
جبکہ امام ابو ثور اور امام احمد رحمہما اللہ کی ایک روایت کے مطابق جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ، ان کا موقف یہ ہے کہ: غاصب شخص اگر چیز کو واپس کر تا ہے تو قیمت کم ہونے کی صورت میں فرق بھی ساتھ ادا کرے گا۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (25/10) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ غاصب شخص پر غصب شدہ چیز کی مارکیٹ ویلیو کم ہو جانے کی صورت میں ضمانت لازم نہیں ہے۔ جبکہ ابو ثور رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: وہ غاصب کے بارے میں کہتے ہیں کہ مارکیٹ ویلیو کم ہونے کی صورت میں ضامن ہو گا؛ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر غصب شدہ چیز غاصب کے پاس تلف ہو جائے تو غاصب پوری چیز کا ضامن ہوتا ہے، تو اسی طرح اگر غصب شدہ چیز کی مارکیٹ ویلیو کم ہو جائے تو غصب شدہ چیز واپس کرتے ہوئے قیمت میں پیدا ہونے والا فرق بھی ادا کرے گا۔" ختم شد
علامہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر غصب شدہ چیز کی قیمت کم ہو جائے تو غاصب کم ہونے والی قیمت کا ضامن نہیں ہو گا، یہ موقف صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، یہی [حنبلی] فقہی موقف ہے، اور اسی پر جمہور حنبلی فقہائے کرام ہیں۔ تاہم امام احمد سے ایک یہ روایت بھی منقول ہے کہ غاصب شخص اس فرق کا ضامن ہو گا، اس موقف کو ابن ابو موسی اور الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔" ختم شد
"الإنصاف" (6/ 155)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف یہ ہے کہ: اگر قیمت میں کمی آئی تو فرق ادا کرے گا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ چیز پہلے 50 ہزار کی تھی اور اب یہ 40 ہزار کی بھی نہیں ہے تو یہ شخص ہی اس کا سبب بنا ہے اس لیے فرق ادا کرے گا۔۔۔ لہذا صحیح موقف یہ ہے کہ قیمت کم ہو جانے کی صورت میں وہ اس فرق کا ضامن ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے اس چیز میں کوئی نقص پیدا ہو جائے یا اس میں کوئی خصوصیت کم ہو جائے تو تب ضامن ہو گا تو اسی طرح چیز کی قیمت کم ہونے کی صورت میں بھی ضامن ہو گا، یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔" ختم شد
"تعليقات ابن عثيمين على الكافي" (5/343) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق
دوم:
اور اگر کسی نے قرض رائج الوقت کرنسی کی صورت میں لیا تھا اور پھر قرض چکانے سے پہلے اس کی مارکیٹ ویلیو میں کمی آ گئی : تو اگر کمی معمولی تھی کہ قرض کی مجموعی رقم کا ایک تہائی نہ بنے تو اتنی ہی کرنسی واپس کرے گا جتنی اس نے قرض میں لی تھی، اس میں کمی یا اضافہ نہیں کرے گا۔
یہ صورت اسلامی فقہ اکادمی کی قرار داد نمبر: (42) ، ( 4/5) کے تحت آتی ہے، جس میں ہے کہ:
"رائج الوقت کرنسی نوٹوں کی صورت میں لیے گئے قرض کی ادائیگی میں اصل یہ ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ادائیگی کی جائے گی جتنی مقدار میں لیے گئے تھے، نہ کہ کرنسی کی ویلیو کو دیکھا جائے گا؛ کیونکہ قرضوں کی ادائیگی میں اصل یہ ہوتا ہے کہ جتنا لیا ہے اتنا ہی واپس کیا جائے گا۔ لہذا قرض کو اس کی مارکیٹ ویلیو کے ساتھ نہیں جوڑا جائے گا۔" ختم شد
سوم:
اگر کرنسی نوٹ کی مالیت میں فرق بہت زیادہ ہو گیا ہے تو پھر ایسی صورت میں قرض کی ادائیگی کے حوالے سے معاصر اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا یہاں مقدار کو معیار بنایا جائے گا یا ان کی مالیت کو؟
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ: کرنسی نوٹوں کے ذریعے آج کل لین دین کیا جاتا ہے ان کی اپنی ذاتی کوئی قیمت نہیں ہوتی، بلکہ ان کی قیمت اعتباری ہوتی ہے جو کہ لوگوں اور بین الاقوامی سطح پر ان کے لین دین سے منسلک ہوتی ہے۔
اسلامی فقہ اکادمی نے اس مسئلے پر ایک سے زائد (تیسرے، پانچویں، آٹھویں، نویں اور بارہویں )اجلاس میں گفت و شنید کی ہے ، اور اس مسئلے میں اجمالی طور پر اقوال کا خلاصہ تین اقوال کی صورت میں سامنے آتا ہے:
پہلا قول: اصولی موقف کہ جتنی رقم لی تھی اتنی ہی واپس کرنی ہے، چاہے کرنسی کس قدر ہی گر گئی ہے ، اگر لوگ اسی کرنسی میں لین دین کر رہے ہیں تو اتنی ہی مقدار میں واپس کرنی ہے جتنی مقدر میں قرض لیا تھا۔
یہ موقف معاصر اہل علم میں سے اکثریت نے اختیار کیا ہے، ان میں شیخ ابن باز، الشیخ ابن عثیمین ، الشیخ الصدیق محمد الامین الضریر، الشیخ علی السالوس بھی شامل ہیں، اور اسی کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (14/146)میں ہے:
"مقروض شخص پر لازم ہے کہ اتنی ہی مقدار میں رقم قرض خواہ کو واپس کرے گا جتنی مقدار میں قرض خواہ سے اس نے رقم لی تھی، اب اگر اس کی قیمت خرید اور فروخت میں فرق آ گیا ہے تو اس کا مقدار پر کوئی اثر نہیں ہو گا چاہے قیمت زیادہ ہوئی ہو یا کم۔" ختم شد
اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس کرنسی میں قرض لیا تھا وہ کرنسی معطل کر دی گئی ہے اور اب اس کرنسی میں لین دین نہیں کیا جا رہا تو اب قرض خواہ ، قرض کی واپسی کے وقت یا جس وقت کرنسی معطل کی گئی ہے اس وقت کے مطابق قرض واپس لے گا، لیکن اگر کرنسی نوٹوں میں لین دین کیا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں قرض خواہ کو اسی کرنسی میں قرض واپس کیا جائے گا جس کرنسی میں اس نے لیا تھا چاہے کرنسی کا ریٹ زیادہ ہے یا کم؛ قرض خواہ رقم میں اضافہ نہیں کر سکتا۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی نے ایک صاع گندم کا ادھار کئی سال پہلے دیا تھا، اور اس وقت ایک صاع گندم 5 ریال کا آتا تھا، اور پھر بعد میں مثال کے طور پر 2 ریال تک قیمت کم ہو گئی ، تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ گندم کا ایک صاع بھی دو اور تین ریال ساتھ دو، نہیں۔ ایسا نہیں ہو گا، اسے ایک صاع گندم ہی ملے گی؛ کیونکہ ایسی چیزیں جن کا مثل موجود ہے تو قرض میں مثل ہی ادا کیا جائے گا، تو ایسے ہی معاملہ کرنسی کا ہے کہ جب تک متعلقہ کرنسی میں لین دین ہو رہا ہے قرض کی واپسی اسی کرنسی میں اتنی ہی مقدار میں ہو گی جتنی مقدار میں قرض میں لی تھی۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (72/9) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق
دوسرا قول: کرنسی کی اس وقت کی ویلیو معتبر ہو گی جب قرض لیا گیا تھا، اس ویلیو یا مالیت کو دیکھنے کے لیے قرض لیتے وقت اس کرنسی کی قیمت خرید دیکھی جائے گی یا اسی وقت میں سونے کی قیمت کو مد نظر رکھا جائے گا۔
یہ موقف بھی معاصر محققین کی کثیر تعداد نے اپنایا ہے، ان میں الشیخ البانیؒ، الشیخ مصطفی الزرقا، الشیخ عبد اللہ البسام، الشیخ محمد سلیمان الاشقر، الشیخ عبد الرحمن البراک، الشیخ محمد المختار السلامی، الشیخ علی القرۃ داغی، اور الشیخ وھبہ زحیلی شامل ہیں۔
تفصیلات کے لیے دیکھیں: " مجلة مجمع الفقه الإسلامي" شمارہ نمبر: ( 3 ، 5، 8، 9 ، 12)
الشیخ علامہ البانی ؒ کہتے ہیں:
"اگر آپ نے مجھے ایک سال پہلے 100 دینار دئیے تھے، اور آج سو دینار کی مالیت 50 دینار کے برابر ہے؛ کیونکہ 50 دینار سے اس وقت -باقی چیزوں کو چھوڑیں -صرف ضروریات زندگی مثلاً: گندم، جو، دودھ اور دیگر ضروریات زندگی خرید سکتا تھا جو آج مجھے 100 دینار میں بھی نہیں ملتیں، تو ایسے میں میرے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میں ظاہری بن کر بیٹھ جاؤ اور میں آپ کو صرف ایک 100 دینار دوں اور کہوں: بھائی جان! میں نے آپ سے 100 دینار لیے تھے اور یہ لو آپ کو میں پورے 100 دینار دے رہا ہوں!!" آگے چل کر مزید کہا: "قرض خواہ کو قرض لینے کے دن قوت خرید کے مطابق دینار واپس کریں گے۔" ختم شد
" سلسلة الهدى والنور" کیسٹ نمبر: (285) میں (57) منٹ کے بعد سماعت کریں۔
تیسرا قول: ایسے حالات میں باہمی صلح صفائی سے معاملہ طے کرنا واجب ہے، اس کے لیے مقروض اور قرض خواہ دونوں کو ہونے والے نقصان کا پہلے تخمینہ لگایا جائے گا اور اس کے بعد باہمی رضا مندی سے دونوں یہ طے کر لیں گے کہ مقروض شخص کتنی رقم ادا کرے گا۔
چنانچہ بحرین کے فیصل اسلامی بینک کے تعاون سے اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے تحت 1420 ہجری 1999ء میں منعقد ہونے والے سیمینار بعنوان: "اقتصادی فقہی سیمینار برائے مطالعۂ مسائل افراط زر " کی تجاویز میں ہے کہ:
"اگر افراط زر عقد کے وقت غیر متوقع تھا، لیکن واقع ہو گیا تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ ادائیگی کے وقت افراط زر بہت زیادہ ہو یا تھوڑا ہو، بہت زیادہ کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ افراط زر قرض کے ایک تہائی تک پہنچ جاتا ہو:
1-اگر افراط زر تھوڑا سا ہے تو قرض میں ترمیم کا جواز پیدا نہیں کر سکتا؛ کیونکہ بنیادی طور پر اصول یہی ہے کہ جو چیز قرض میں جتنی لی ہے اتنی ہی واپس کرنی ہے، معمولی جہالت، یا غرر یا کمی شرعی طور پر قابل در گزر ہوتا ہے۔
2-اگر افراط زر بہت زیادہ ہے اور اتنی ہی رقم واپس کرنے پر قرض خواہ کو بہت زیادہ نقصان ہو گا تو اس نقصان کو ختم کرنا لازمی ہے، تا کہ اس اصول پر بھی عمل ہو سکے کہ: "ضرر زائل کیا جائے گا۔""
ایسی صورت میں حل یہ ہے کہ آپس میں صلح صفائی پر فیصلہ کر لیں۔
اس کے لیے افراط زر کی وجہ سے پیدا ہونے والے فرق کو مقروض اور قرض خواہ کے درمیان باہمی رضا مندی سے حل کیا جائے وہ دونوں جس تناسب پر راضی ہو جائیں معاملہ انہی کے مابین ہو گا۔" ختم شد
" مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (12/4/286) معمولی تصرف کے ساتھ
اب ظاہر یہی ہوتا ہے کہ -واللہ اعلم- اس مسئلے میں حق کے قریب ترین قول یہ ہے کہ قیمت ادا کرنا واجب ہے یا پھر دونوں فریق باہمی رضا مندی سے طے کر لیں کہ اگر فرق بہت زیادہ آ رہا ہے کہ قرض کی کل رقم کے ایک تہائی تک پہنچ رہا ہے تو فرق آپس میں تقسیم کر لیں۔
معمولی یا غیر معمولی فرق کے لیے ایک تہائی مقدار کو اصولی حد قرار دیا گیا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے بہت سے مسائل میں ایک تہائی مقدار کو قلت اور کثرت میں تفریق کے لیے معتبر قرار دیا ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (6/179)میں کہتے ہیں:
"ایک تہائی کے بارے میں ہم نے شریعت میں دیکھا ہے کہ متعدد مقامات پر اسے معتبر جانا ہے، مثلاً: وصیت، قریب المرگ شخص کا تحائف دینا، عورت اور مرد کے زخموں کو ایک تہائی تک برابر قرار دینا۔ وغیرہ
علامہ اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام احمد نے بتلایا کہ: فقہائے کرام ایک تہائی کی مقدار کو 17 مسائل میں معتبر سمجھتے ہیں۔
ویسے بھی ایک تہائی کی مقدار کثرت کی حد ہے، اور اس سے کم کو قلت کہا جائے گا، اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وصیت کے حوالے سے فرمان ہے کہ: (ایک تہائی کی وصیت کر دو، اور ایک تہائی بہت زیادہ ہے۔)تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ کثرت کی آخری حد ہے، اسی لیے کثرت کے لیے ایک تہائی مقدار کو معتبر سمجھا گیا ہے۔" ختم شد
چہارم:
قیمت ادا کرنے کا موقف یا طرفین کا نقصان کو باہمی رضا مندی کے ساتھ تقسیم کرنے کا موقف دیگر شرعی نصوص کے عموم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے کہ جن میں عدل، انصاف کا حکم دیا گیا ہے، جو ظلم اور ضرر سے بچانے کی تلقین کرتی ہیں۔
چنانچہ جو مقروض نے لیا تھا اسی کی مثل واپس کرنے کا موقف اپنانے کی صورت میں خصوصاً جب کرنسی کی ویلیو بہت زیادہ کم یا زیادہ ہو چکی ہو متعدد اشکالات وارد ہوتے ہیں:
1-اس سے قرض خواہ کو نقصان ہو گا، اور یہ عدل کے تقاضوں سے بھی متصادم بات ہے، نیز شریعت کسی کو بھی نقصان پہنچانے کی ترغیب نہیں دیتی بلکہ شریعت تو نقصان اور ضرر سے بچاتی ہے۔
2-اس موقف میں نقدی نوٹوں کی ظاہری شکل کو اہمیت دی جا رہی ہے جب کہ ان کی حقیقی طاقت اور ویلیو کو نہیں دیکھا جا رہا، اگر حقیقی معنوں میں مثل ادا کرنے کا موقف اپنا یا جائے تو وہ در حقیقت ان نوٹوں کے ذریعے کی جانے والی خریداری بتلائے گی کہ مثل ہوا یا نہیں، کیونکہ اب اتنی ہی مقدار میں وہ کچھ نہیں خریدا جا سکتا جو قرض لینے کے وقت میں خریدا جا سکتا تھا کیونکہ کرنسی کی قدر میں بہت زیادہ فرق آ چکا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شرح المحرر میں کہتے ہیں:
"جب کوئی کسی کو قرض دے یا کوئی کسی کا اناج غصب کرے پھر اس کی قیمت گر جائے ، تو یہ اس چیز میں نقص پیدا ہونے کے برابر ہے، اس لیے قرض خواہ کو ناقص حالت میں وصول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی قیمت اور قدر کو دیکھا جائے گا۔ یہاں یہی عدل ہے؛ کیونکہ قرض کا مال اور واپس ہونے والا مال دونوں تبھی یکساں ہوں گے جب دونوں کی قدر یکساں ہو گی، اور اگر دونوں کی قدر یکساں نہ ہو تو دونوں ہم مثل قرار نہیں پائیں گے۔" ختم شد
بہوتی رحمہ اللہ نے ان سے یہ بات "المنح الشافيات" صفحہ: 443 میں نقل کی ہے۔
اسی طرح عبد اللہ بن عبد الرحمن ابا بطین جو کہ اپنے عہد میں نجد کے مفتی تھے، وہ کہتے ہیں کہ: "چیز کی قدر گر جانے کی صورت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف بالکل واضح ہے کہ ایسی صورت میں حقیقی قدر اور قیمت کو دیکھا جائے گا، ان کا یہ موقف کافی مضبوط ہے، لہذا اگر ہمارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آیا تو ہم جہاں تک ممکن ہو سکا اس مسئلے کو طرفین کی باہمی رضا مندی سے حل کریں گے۔" ختم شد
" الدرر السنية " (6/206)
الشیخ حسن بن حسین آل شیخ بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے موقف کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "ہمارے ہاں فتوے کے لیے انہی کا موقف معتمد ہے۔" ختم شد
" الدرر السنية" (7/212)
اسی طرح الشیخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ اور شمس الدین ابن قیم کے ساتھ ساتھ نجد کے متعدد سلفی علمائے کرام بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ کرنسی کی قدر میں اگر اضافہ یا کمی ہو جائے تو قرض خواہ کو قدر اور قیمت کے مطابق کرنسی واپس کی جائے گی، بالکل ایسے جیسے کوئی کرنسی حکومت کی طرف سے منع کر دی گئی تو اب اس کا متبادل قرض کی قدر کے مطابق دیا جائے گا۔ الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ نے ہر قسم کے قرض کا یہی حکم بیان کیا ہے، اور ان کے اس موقف پر بہت سے دیگر حنبلی فقہائے کرام ہیں۔" ختم شد
" مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (9/2/443)
شیخ عبدالرحمٰن البراک رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کرنسی کی قدر بہت زیادہ گر جائے کہ جس کرنسی میں قرض دینے والے نے قرض دیا تھا اس کی قدر میں بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی، تو اس صورت میں قرض کی واپسی اسی کرنسی میں کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ جس دن قرض دیا گیا تھا اس دن اس کی قیمت نکالنی چاہیے۔ اس لیے ہمیں ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قیمت کا پتہ اس دن معلوم کرنا چاہیے جس دن قرض دیا گیا تھا، اور اسی بنیاد پر قرض واپس ادا کرنا چاہیے، یا قرض دینے والے کے ساتھ باہمی رضا مندی سے معاملہ طے کر لے۔"
3- کاغذی کرنسی کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ جس طرح علمائے کرام نے سونے اور چاندی کے بارے میں مثل واپس کرنے کو واجب قرار دیا ہے اسی طرح کرنسی میں بھی مثل واپس کرنا واجب ہے، یہ قیاس صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کسی بھی طرح سے اپنی قیمت میں کمی نہیں کرتے، اور اگر ان کی قیمت میں کچھ کمی ہو بھی جائے تو کچھ فیصد تک ان کی قیمت میں کمی آتی ہے، لیکن سونے اور چاندی کے سکے اپنی پوری قیمت نہیں کھوتے، اور اس لیے کاغذی کرنسیوں کے برعکس، سونے اور چاندی کے سکے قرض میں واپس کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جبکہ کرنسی نوٹ تو محض کاغذات ہیں جو اپنے آپ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے کہ اگر انہیں مختلف ممالک تسلیم کرنا چھوڑ دیں تو یہ کاغذ کے ٹکڑے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں۔
پنجم:
اگر کسی نے غصب شدہ مال، یا چوری شدہ مال ، یا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے مال واپس کرنا ہو تو ایسی صورت میں مال کی اصل قدر کو معتبر سمجھنا واجب ہے؛ کیونکہ غاصب، چور اور قرض کی ادائیگی میں بلا وجہ ٹال مٹول کرنے والا در حقیقت ظالم ہے، اس لیے اپنے ظلم اور جارحیت کی وجہ سے مکمل نقصان کا ذمہ دار ہو گا۔
لہذا: "کرنسی نوٹوں کو غصب کرنے والا شخص ان نوٹوں کی قدر کا ضامن ہو گا کہ اگر کرنسی نوٹ افراط زر کی وجہ سے اپنی اتنی قدر کھو بیٹھتے ہیں کہ لوگ اتنی قدر کم ہونے کی وجہ سے ہونے والا نقصان عام طور پر برداشت نہیں کرتے، تو یہ غاصب شخص ان نوٹوں کو غصب کرتے وقت کی قدر کے مطابق واپس کرے گا۔" ختم شد
"التضخم النقدي" از الشیخ خالد المصلح ، صفحہ نمبر: (222)
اور اگر کسی کے ذمے لگنے والی رقم باہمی رضا مندی کی وجہ سے لگی تھی، مثلاً: قرض حسنہ فراہم کیا تھا، یا کسی چیز کی قیمت کا بقایا رہتا تھا، یا حق مہر کی رقم باقی تھی تو ایسے میں افراط زر کی صورت میں طرفین کے درمیان باہمی رضا مندی سے معاملہ طے کرنا واجب ہے کہ دونوں لوگ نقصان کو باہمی رضا مندی سے تقسیم کر لیں؛ کیونکہ مقروض کا کرنسی کی قدر بہت زیادہ کم کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔
اور اگر مقررہ رقم ہی واپس کرنے کو لازم قرار دیا جائے تو اس سے قرض خواہ پر واضح زیادتی ہے، اور اگر قیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے رقم کی قدر کے مطابق ادائیگی کو لازم قرار دیں تو اس سے مقروض پر واضح زیادتی ہو گی، تو یہاں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ایک کو نقصان نہ پہنچایا جائے بلکہ نقصان کو دونوں میں باہمی رضامندی کے ساتھ مخصوص تناسب میں تقسیم کر دیا جائے۔
باہمی صلح اور رضا مندی سے امور طے کرنا فی نفسہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن کبھی ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ باہمی صلح اور رضا مندی سے معاملہ طے کرنا دونوں فریقوں پر واجب ہو جاتا ہے۔
جیسے کہ ابن عرفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"باہمی صلح اور رضا مندی سے معاملہ حل کرنا ذاتی طور پر مندوب کام ہے، لیکن مصلحت اسی میں ہو کہ باہمی صلح کے ساتھ امور طے کیے جائیں تو پھر یہ واجب بھی ہو جاتا ہے۔" ختم شد
"مواهب الجليل" (5/80)
ششم:
وہ حالت جس میں قرض کی ادائیگی کے لیے قرض کی قدر اور ویلیو کو مد نظر رکھنا واجب ہے، اس میں یہ بھی واجب ہے کہ قرض کسی اور کرنسی میں ادا کیا جائے تا کہ سودی صورت سے بچا جا سکے۔
چنانچہ علامہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرض خواہ کو قیمت معیار بنا کر قرض واپس دیا جائے تو پھر اگر قرض میں لی ہوئی چیز ایسی ہے جس میں سود پایا جا سکتا ہے تو قرض واپس کرتے ہوئے ایسا انداز اپنایا جائے کہ سود نہ آ سکے، چنانچہ اگر چاندی کے درہم قرض میں دیے تھے اور حاکم وقت نے سکوں پر پابندی لگا دی تو چاندی کے سکوں کے برابر سونا دے گا۔ اور اگر الٹ ہے تو پھر بدلے میں بھی الٹ کر دیا جائے گا۔
اسی بات کی صراحت "الارشاد" اور "المبھج" میں کئی گئی ہے جو کہ بالکل واضح ہے۔
اسی طرح الفروع میں ہے کہ: قیمت کو معیار بنا کر کوئی اور جنس دی جائے گی۔" ختم شد
ماخوذ از: "الإنصاف" (5/127)
علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرض خواہ قرضہ دینے کے دن والی قیمت کا مطالبہ قرض کی ادائیگی والے دن کر سکتا ہے، تاہم قیمت ادا کرنے کی صورت میں اگر ربا الفضل کی صورت بن رہی ہو تو جنس تبدیل کر کے ربا الفضل سے بچا جائے گا؛ لہذا اگر درہم قرض میں دئیے تھے تو دینار دے دے، اور اگر دینار دئیے تھے تو درہم دے دے، تا کہ ربا الفضل کی صورت نہ بنے۔" ختم شد
" المنح الشافيات بشرح مفردات الإمام أحمد" (1/439)
خلاصہ کلام:
غاصب اور چور پر واجب ہے کہ جس دن کرنسی غصب کی تھی یا چوری کی تھی اس دن کرنسی کی قدر کے مطابق واپس کرے گا ، اور اگر چوری شدہ چیز کوئی عینی مال تھا تو اسے واپس کرتے ہوئے اگر اس کی قیمت گر چکی تھی تو کمی کو اضافی رقم دے کر پورا کرے گا۔
جبکہ دیگر قرضوں کے بارے میں یہ ہے کہ معمولی افراط زر اور غیر معمولی افراط زر میں تفریق کی جائے گی: لہذا اگر افراط زر معمولی نوعیت کا ہے کہ قرض کی مجموعی رقم کے ایک تہائی تک نہیں پہنچتا تو ایسے میں واجب یہ ہے کہ مثل ہی واپس کرے، اور اس کی قیمت اور قدر کی طرف نہیں دیکھا جائے گا۔
اور اگر افراط زر غیر معمولی ہے کہ قرض کی مجموعی رقم کے ایک تہائی حصے یا اس سے بھی زیادہ تک پہنچ رہا ہے تو پھر واجب یہ ہے کہ دونوں فریق باہمی صلح صفائی سے ہونے والے نقصان کو آپس میں تقسیم کر لیں۔
اور جب قیمت اور قدر کو معیار بنایا جائے تو پھر اصل رقم کا حساب قرض لینے کے وقت سونے کی قیمت کے مطابق لگایا جائے گا، یا اس وقت کی قوتِ خرید کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے گا، پھر ادائیگی اس کرنسی میں نہیں کی جائے گی جس کرنسی میں قرض لیا تھا تا کہ ربا الفضل والی سودی شکل سے بچا جا سکے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (99642 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم