"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مجھے معلوم ہوا کہ رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی کو بوسہ دینا جائز ہے، لیکن اگر اس کی وجہ سے مرد یا عورت کو منی نکلنے کا علم ہو تو اس کا کیا حکم ہوگا، یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شادی رمضان سے صرف ایک ہفتہ پہلے ہی ہوئی ہے۔
الحمد للہ.
اول:
روزہ دار کیلئے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی کیساتھ بوس و کنار کرنا جائز ہے، بلکہ آپس میں خوش طبعی بھی کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کہ معاملہ جماع یا منی خارج ہونے تک نہ پہنچے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ دیتے، اور اسی طرح مباشرت بھی کرتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے" بخاری: (1927) مسلم: (1106)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مباشرت کا معنی ہاتھ لگانا کے ہیں، اور اصل میں یہ لفظ ایک جلد کا دوسری جلد سے ملنے کا معنی دیتا ہے" انتہی
عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ: " لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس اور شہوت کو زیادہ کنٹرول میں رکھ سکتے تھے، چنانچہ آپ خوش طبعی فرماتے لیکن پھر بھی جماع یا منی کے اخراج کے قریب بھی نہ جاتے۔
لہذا ۔۔۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا خدشہ ہو کہ اگر اس نے اپنی بیوی کیساتھ بوس و کنار کیا تو معاملہ جماع یا منی خارج ہونے تک پہنچ جائے گا، تو ایسے شخص کو خوش طبعی کرنے سے گریز ہی کرنا چاہیے، تا کہ اس کا روزہ فاسد نہ ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" روزہ دار کے بوسہ دینے کے بارے میں صرف دو صورتیں ہیں:
ایک صورت جائز اور دوسری قسم حرام ہے، حرام ایسی صورت میں ہے کہ روزہ فاسد ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
جبکہ جائز صورت کی دو حالتیں ہیں:
1- بوسہ دینے میں شہوت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
2- شہوت کو ہوا تو ملے لیکن اپنا روزہ نہ ٹوٹنے کے متعلق مطمئن ہو۔
بوسے کے علاوہ جماع کی ابتدائی چیزیں مثلاً: گلے ملنا وغیرہ کا بھی بوسہ والا ہی حکم ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: " الشرح الممتع " (6/429)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
" اگر کوئی شخص اپنی بیوی کیساتھ رمضان میں دن کے وقت بوس و کنار کرے، یا خوش طبعی کرے تو کیا اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"روزے کی حالت میں مرد کا اپنی بیوی کیساتھ بوس و کنار ، خوش طبعی، یا جماع کے بغیر مباشرت کرنا سب کچھ جائز ہے، ان میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ بھی دیتے اور مباشرت بھی کرتے تھے، تاہم اگر کوئی شخص سرعت شہوت کی وجہ سے حرام کام میں واقع ہو جانے کا خدشہ رکھے تو اس کیلئے ایسا کرنا مکروہ ہے، لہذا اگر کسی شخص کی منی خارج ہو جائے تو اسے بقیہ دن میں کھانے پینے سے رکنا پڑے گا اور بعد میں قضا بھی دینی پڑے گی، البتہ جمہور اہل علم کے ہاں اس شخص پر کفارہ نہیں ہوگا" انتہی
"فتاوى الشیخ ابن باز" (15/315)
دوم:
اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے اور منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا، اور اسے اس کی جگہ رمضان کے بعد قضا کے طور پر روزہ رکھنا ہوگا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر روزہ دار بوسہ دے، اور منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، اس پر ہمارے علم کے مطابق کسی نے اختلاف نہیں کیا" انتہی
"المغنی":(4/361)
لیکن ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہوگا، کیونکہ کفارہ اسی شخص پر لازم ہوتا ہے جو اپنے روزے کو جماع کے ذریعے فاسد کرے، مزید کیلئے دیکھیں: فتوی نمبر: (49750)
واللہ اعلم.