"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
درج ذیل حدیث صحیح ہے؟ میں تفصیل اور شرح کے ساتھ جواب چاہتا ہوں؛ کیونکہ میں جس وقت لوگوں کو یہ کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے تو وہ کہتے ہیں: “وہابیوں نے تمام احادیث کو ضعیف بنا دیا ہے، اس طرح انہوں نے دین کا بڑا حصہ الگ کر دیا ہے” حدیث یہ ہے کہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات نماز پڑھا کرتے تھے پھر آپ وتر ادا کرتے” اسے ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے نے ” المصنف ” جلد دوم، صفحہ: 294، اور بیہقی رحمہ اللہ نے نے ” سنن بیہقی” میں جلد دوم صفحہ: 496، امام طبرانی رحمہ اللہ نے ” طبرانی کبیر”میں جلد گیارہ صفحہ: 393، اور ابن حُميد نے اپنی ” مسند حمید” میں صفحہ: 218 پر روایت کیا ہے۔
الحمد للہ.
اول:
یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی جاتی ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات اور وتر ادا کرتے تھے)
اسے ابن ابی شیبہ نے ” المصنف ” (2/ 164) میں ، عبد بن حميد نے -” المنتخب ” کے مطابق حدیث نمبر: (653) کے تحت- طبرانی نے ” المعجم الکبیر” (11/393) میں اور ” المعجم الأوسط ” (1/243) میں اسی طرح امام بیہقی نے ” السنن الكبرى ” (2/698) میں روایت کیا ہے۔
ان تمام کتب میں یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان ، عن الحکم بن عتیبہ، عن مقسم ، عن ابن عباس کی سند سے موجود ہے۔
طبرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ روایت الحکم سے ابو شیبہ کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور ابن عباس سے یہ روایت صرف اسی سند سے ملتی ہے”
اور اس سند میں مذکور ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی اور عبسی ہے، محدثین کرام اس کی تمام احادیث مسترد کرنے پر متفق ہیں نیز اس کی احادیث ضعیف ہیں، بلکہ ابن مبارک رحمہ اللہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ: “ان [روایات] کو پھینک دو” امام احمد بن حنبل نے اسے سخت ترین ضعیف قرار دیا ہے۔
نیز اسی کے بارے میں یہ بھی فرمایا: ” منكر الحديث ، قريب من الحسن بن عمارة ، والحسن بن عمارة متروك الحديث ” یعنی: یہ منکر الحدیث ہے اور حسن بن عمارہ جیسا ہی اس کا حال ہے اور حسن بن عمارہ متروک الحدیث ہے۔
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “متروك الحديث ” یہ متروک الحدیث ہے۔
ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں :”تركوا حديثه ” اس کی احادیث کو محدثین نے ترک کر دیا تھا۔
مزید کیلیے ” تهذيب التهذيب ” (1/145) میں اس کے حالات ملاحظہ کریں۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“یہ ابراہیم بنی شیبہ کا دادا ہے، جو کہ ضعیف ہے، لہذا اس کی احادیث حجت نہیں ہیں، ویسے بھی معروف بات یہ ہے کہ رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھنا عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے منقول ہے” انتہی
” شرح صحیح بخاری” (3/141)
زیلعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے کمزور ہے، یہ امام ابو بکر بن ابو شیبہ کے دادا ہیں، لیکن ان کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے، نیز یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث سے بھی متصادم ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے)” انتہی
مختصراً ماخوذ از: ” نصب الرایہ ” (2/153)
نیز اس روایت کو درج ذیل تمام ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے:
ابن عبد البر نے ” التمہید ” (8/115) میں ، امام بیہقی نے ” السنن الكبرى ” (2/698) میں، ابن الملقن نے ” البدر المنیر ” (4/350) میں ، ہیثمی نے ” مجمع الزوائد ” (3/173) میں، ابن حجر عسقلانی نے ” الدرایۃ ” (1/203) میں، نیز ذہبی نے ” ميزان الاعتدال ” (1/48) منکر [انتہائی ضعیف ]قرار دیا ہے ،اور ابن حجر ہیتمی ” الفتاوى الكبرى ” (1/195) میں کہتے ہیں کہ: یہ روایت سخت ضعیف ہے، اسی طرح قسطلانی نے ” المواهب اللدنية ” (3/306) میں اسے ضعیف قرار دیا، سيوطی نے – ” الحاوی ” (1/413) کے مطابق – ضعیف قرار دیا اور آخر میں البانی نے اس حدیث پر ” سلسلہ ضعیفہ ” (560) میں یہ حکم لگایا ہے کہ یہ من گھڑت اور موضوع ہے۔
چنانچہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام اس حدیث کو ضعیف قرار دینے میں متفق ہیں۔
دوم:
صحیح بخاری وغیرہ میں یہ ثابت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں قیام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے”
چنانچہ یہاں پر عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے متعلق خبر دے رہی ہیں ، چنانچہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعت ادا کی ہوتی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کبھی بھی اسے چھپا کر نہ رکھتیں بلکہ بتلا دیتیں۔
سوم:
نماز تراویح کی رکعات سے متعلق پہلے سوال نمبر: (82152) اور (9036) میں تفصیلی بیان گزر چکا ہے ۔
چہارم:
لوگوں کا یہ کہنا کہ ان کے مد مقابل لوگ وہابی ہیں تو اس بارے میں فتوی نمبر: (10867) اور (120090) ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.