"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مجھے بہت ہی سخت قسم کے وسوسوں کا سامنا تھا، میں جب رمضان وضو کرتی تھی تو بہت زیادہ تھوکتی تھی کہ کہیں پانی میرے حلق میں نہ چلا جائے، ایک بار مجھے اپنے آپ پر بالکل بھی کنٹرول نہ رہا اور میں نے عمدا پانی نگل لیا، تو میں اپنے گناہ کا کفارہ کیسے ادا کروں؟
اسی طرح ایک بار میں سوئی ہوئی تھی، اور میری والدہ نے رمضان میں بادام خشک کرنے کیلئے میرے پاس ہی رکھ دیے، تو مجھے میرے منہ میں کچھ محسوس ہوا ، اب پتا نہیں وہ کیا چیز تھی، بادام تھے یا منہ میں بچے ہوئے کھانے کے ذرات تھے، میں نے سستی کی وجہ سے اٹھ کر کلی کرنے کی بجائے انہیں نگل لیا، اب مجھ پر کیا لازم ہے؟ ا
سی طرح ایک اور رمضان میں میرے منہ میں کلی کچھ پانی رہ گیا، تو میں نے عمدا اسے نگل لیا۔
آخری بات یہ ہے کہ اگر کسی نے خود سے قے کرنے کی کوشش کی، پھر قے کو نگل لیا، صرف سستی کی بنا پر کہ اٹھ کر کلی کرنے پڑے گی اس کا کیا حکم ہے؟ اب میں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوں، اور ان کوتاہیوں سے میں نے توبہ کر لی ہے، میں اپنے گناہوں کا کفارہ کیسے ادا کر سکتی ہوں؟
الحمد للہ.
اول:
روزہ دار کلی کرے تو پانی باہر گرانا لازم ہے، پھر پانی باہر گرانے کے بعد بہت زیادہ تھوکنا شرعی عمل نہیں ہے، یہ ایک بری عادت ہے، جو عبادت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (49005) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
آپ کا یہ کہنا کہ: ” مجھے اپنے آپ پر بالکل بھی کنٹرول نہ رہا اور میں نے عمدا پانی نگل لیا ” اس سے مراد یہ ہے کہ کلی کا پانی ابھی منہ میں موجود تھا اور اسے آپ نے نگل لیا تو اس سے آپکا روزہ ٹوٹ چکا ہے، اس کیلئے آپ پرتوبہ لازم ہےاور اس دن کا روزہ دوبارہ رکھنا ہوگا۔
اور اگر آپکی مراد یہ ہے کہ کلی کرنے کے بعد منہ سے پانی گرا دیا تھا، پھر بعد جمع ہونے والا لعاب آپ نے نگل لیاہے تو اس میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے، بجیرمی رحمہ اللہ اپنے “حاشیہ” (2/ 378)میں کہتے ہیں:
“کلی کا پانی نکال دینے کے بعد منہ میں بننے والی رطوبت کو نگلنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، اگرچہ اسے تھوکنا ممکن ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس سے بچنا مشکل کام ہے” انتہی
اسی طرح آپ نے کہا: ” میرے منہ میں پانی باقی بچ گیا، تو میں نے عمدا اسے نگل لیا ”
اگر اس سے مراد یہ ہے کہ کلی کا پانی آپ نے نگل لیا تو آپکا روزہ ٹوٹ چکا ہے، اب آپکو اس کی قضا دینا ہوگی۔
اور اگر اس سے مراد منہ سے پانی گرا دینے کے بعد پیدا ہونے والی رطوبت ہے ، تو اس بارے میں بھی راجح یہی ہے کہ آپ پر کچھ لازم نہیں آتا۔
سوم:
جس نے دانتوں میں پھنس جانے والے غذائی ذرات باہر تھوکنے کے امکان کے باوجود عمداً نگل لیے، تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، تاہم اگر لعاب حلق کی جانب بہتا ہوا ذرات کو بھی اپنے ساتھ حلق میں لے گیا، اور روزہ دار اسے روک نہ پایا تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس کے ذمہ کچھ نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (78438)
اور ہمیں مسئلہ کی بابت دریافت کرنے والی خاتون کی بات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے منہ میں کھانے کے ذرات عمدا نگلے ہیں، اور اٹھ کر منہ صاف کرنے کی بجائے سستی سے کام لیاہے، چنانچہ اگر یہ معاملہ رمضان میں رات کے وقت پیش آیا ہے تو سائلہ پر کچھ نہیں ہے، اور اگر فجر طلوع ہونے کے بعد ایسا ہوا ہے تو پھر اسے توبہ کیساتھ اس دن کی قضا بھی دینا ہوگی۔
چہارم:
جسے خود بخود قے آ جائے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، اس کا روزہ درست ہے، لیکن جو شخص جان بوجھ کر قے کرے تو اسے قضا دینی پڑے گی۔
مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (95296 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
جس شخص کو خود بخود قے آئی اور اس نے قے واپس نگل لی ، اگر تو بے اختیاری میں اس نے قے نگلی تو اس پر کچھ نہیں ہے، اور اگر عمدا قے نگلی تو اسکا روزہ فاسد ہو چکا ہے، اور اسے اس روزے کی قضا دینا ہوگی، دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
“عمدا قے کرنے کی کوشش کرے تو اس کا روزہ فاسد ہے، اور اگر قے خود بخود آجائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، اسی طرح غیر ارادی طور پر قے نگل جائے تو تب بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (10/ 254)
مزید معلومات کیلئے آپ سوال نمبر: (115155) کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ:
جن دنوں کے روزے آپ نے عمداً توڑے ہیں ان کی قضا دینا واجب ہے، چاہے پانی نگلنے کی صورت میں توڑےہوں، یا منہ میں بچ جانے والے کھانے کے ذرات نگلنے کی صورت میں ، یا عمدا قے نگلنے کی صورت میں، البتہ لعاب کی نگلنے کی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا، اس کیلئے ان دنوں کے برابر روزے بطور قضا رکھیں، ساتھ میں اللہ تعالی سے توبہ بھی کریں، کہ آپ نے اپنی مرضی سے روزے کے دوران غلط کام کیا۔
آپ پر ان روزوں کی قضا اس وقت واجب ہے جب آپ دودھ پلانے کی مدت سے فارغ ہو جائیں، کیونکہ دودھ پلانے والی خاتون اس دورانیہ میں سابقہ رہ جانے والے روزوں کی قضا نہ دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مشقت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکتی ہو ،یا اپنے اور بچے کی صحت کے پیش نظر قضا مؤ خر کر دے۔
اور جس نے شدید وسوسوں اور اعصابی تناؤ کی وجہ سے کچھ کیا تو امید ہے کہ اس پر کوئی حرج نہیں ہے، تاہم وسوسوں سے بچنے کیلئے شدت سے اہتمام کرنا ضروری ہے، ان کی طرف بالکل بھی دھیان نہ دیں؛ کیونکہ وسوسوں کا بہترین علاج یہی ہے کہ ان کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی جائے، اور وسوسوں سے دور رہے۔
وسوسوں کے علاج کیلئے آپ سوال نمبر: (111929) اور (60303) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم