اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھی اور پھر ماہواری آ گئی، اب کیا حکم ہے؟

12-06-2017

سوال 222426

کئی سال پہلے میں نے ایک مسجد میں اعتکاف کیا ، لیکن ستائیسویں دن مجھے ماہواری شروع ہو گئی، جس کی بنا پر میں اعتکاف سے اٹھ گئی، پھر میں نے یہ مسئلہ بہشتی زیور کتاب میں دیکھا تو اس میں تھا کہ اعتکاف ٹھیک ہے، پھر اس کے کئی سال بعد ایک مفتی صاحب سے میں نے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہ کتاب معتمد نہیں ہے، اور آپ کیلیے بقیہ دن مکمل کرنا ضروری ہیں، جس پر میں نے گھر کے اپنے کمرے میں اعتکاف پورا کیا، پھر مجھے بعد میں علم ہوا کہ اعتکاف تو صرف مسجد میں ہی صحیح ہوتا ہے، تو اب میرا سوال یہ ہے کہ :
کیا میں مسجد میں دوبارہ سے پورے دس دن کا اعتکاف بیٹھوں یا میں کیا کروں؟

جواب کا خلاصہ:

خلاصہ یہ ہوا کہ: اگر آپ کا اعتکاف نفلی تھا -اور لگتا بھی ایسا ہی ہے- تو حیض سے پہلے جتنا اعتکاف ہوا وہ صحیح ہے، اور حیض کے بعد  جو حصہ اعتکاف کا باقی تھا اس کیلیے آپ کو دوبارہ مسجد جانے کی ضرورت نہیں ہے،  اور اگر آپ کا اعتکاف نذر ماننے کی وجہ سے واجب تھا تو پھر نذر ماننے کیلیے جو الفاظ کہے تھے انہیں دیکھنا ہو گا کہ کیا آپ کے الفاظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ پر مکمل اعتکاف کرنا ضروری ہے یا نہیں؟.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  مرد کا اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ)
ترجمہ: اور تم اپنی بیویوں سے مباشرت بھی نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو۔[البقرة:187] تو اس آیت میں اعتکاف کو مسجدوں میں خاص کیا ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: " المغنی " از: ابن قدامہ (3/189)

اور عورت کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ عورت کا حکم بھی مرد والا ہی ہے؛ اس لیے عورت کا اعتکاف بھی صرف مسجد میں ہی صحیح ہو گا، نیز گھر میں بنی ہوئی جائے نماز  میں عورت کا اعتکاف صحیح نہیں ہو گا۔

اس مسئلے کو مزید تفصیل سے دیکھنے کیلیے آپ فتوی نمبر: (50025) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا: مردوں کیلیے مستحب سنت ہے، اور اگر عورتوں کیلیے فتنوں سے محفوظ  اور صرف خواتین کیلیے مخصوص جگہ ہو  تو عورتوں کیلیے بھی  مستحب عمل ہے، نیز یہ بھی شرط ہے کہ عورت کے اعتکاف بیٹھنے کی وجہ سے اس کے ذمہ داریوں میں خلل نہ آئے اور خاوند اس کی اجازت بھی دے۔

اس مسئلے میں مزید کیلیے  آپ فتوی نمبر:  (37698) کا مطالعہ کریں۔

سوم:

اعتکاف بنیادی طور پر سنت ہے واجب نہیں ہے، واجب ہونے کی صورت تب ہی بنتی ہے جب انسان اعتکاف کی نذر مان لے، لہذا اگر کوئی شخص اعتکاف کی نذر مانے تو اسے اپنی یہ نذر پوری کرنا ہو گی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کی نذر مانے تو  اسے اپنی نذر پوری کرنی چاہیے، اور جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی مت کرے) بخاری: (6696)

اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ: "میں نے  عرض کیا: اللہ کے رسول! میں  نے دورِ جاہلیت میں مسجد الحرام میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنی نذر پوری کرو) بخاری: (6697) مسلم: (1656)

ابن منذر رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الاجماع" صفحہ: (53) میں کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اعتکاف سنت ہے، لوگوں پر واجب نہیں ہے، الا کہ کوئی شخص اعتکاف کی نذر مان کر  اپنے اوپر واجب کر لے، تو پھر اعتکاف واجب ہو جائے گا" انتہی

چہارم:

اگر عورت مسجد میں اعتکاف بیٹھے اور پھر اسے ماہواری آ جائے تو عورت پر فوراً مسجد سے چلے جانا واجب ہے، اس پر اہل علم کا اتفاق ہے، نیز جمہور اہل علم کے ہاں اعتکاف کا گزرا ہوا حصہ رائیگاں بھی نہیں ہو گا۔

عورت اپنے گھر چلی جائے  اور جب پاک صاف ہو جائے تو اگر اعتکاف نذر کی وجہ سے واجب تھا تو  عورت دوبارہ مسجد میں آ کر اپنا بقیہ اعتکاف مکمل کرے گی اور اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے۔

لیکن اگر اعتکاف نفل تھا؛ تو پھر اس کیلیے مسجد میں واپس آنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس اعتکاف کی بعد میں کوئی قضائی ہے۔

امام مالک نے ایک ایسی عورت کے بارے میں فرمایا: جسے اعتکاف کے دوران حیض آ گیا:
"وہ اپنے گھر چلی جائے اور جب پاک صاف ہو جائے تو مسجد میں واپس آ جائے، چاہے کسی بھی وقت  پاک صاف ہو، پھر اپنے سابقہ اعتکاف کو مکمل کرے" انتہی
" الموطأ " (1/316)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اعتکاف کے بعد حیض آگیا تو عورت کو لازمی طور پر پاک صاف ہونے تک مسجد سے چلے جانا ہو گا، پھر پاک صاف ہونے پر واپس آ جائے گی۔

اور اگر نذر ماننے کی وجہ سے یہ اعتکاف واجب ہوا تھا لیکن حیض اور نفاس سے پاکی حاصل ہونے سے پہلے وقت گزر گیا تو پھر اسے قضا دینا ہو گی، لیکن اگر یہ اعتکاف نفل تھا تو ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اس کا وقت نکل چکا ہے " انتہی
ماخوذ از: شیخ ابن جبرین کی ویب سائٹ پر اعتکاف کے متعلق نشر شدہ گفتگو:
http://www.ibn-jebreen.com/?t=books&cat=6&book=10&page=356

مزید کیلیے آپ :  " المغنی " (3/206)  اسی طرح "شرح العمدة " از ابن تیمیہ: (2/839 ) کتاب الصیام کا مطالعہ کریں۔.

اعتکاف
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔