"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اگر زمین، مکانات، دکانیں تجارت کیلئے نہیں ہیں تو ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ نہیں ہے، چاہے ان کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، یعنی اگر مالک ان اراضی اور مکانات وغیرہ کی خرید و فروخت کا کام نفع کمانے کیلئے نہیں کرتا، اس بات کا تفصیلی بیان پہلے فتوی نمبر: (10823) میں گزر چکا ہے۔
چنانچہ کرایہ پر دی گئی پراپرٹی پر زکاۃ لاگو نہیں ہوتی، تاہم حاصل شدہ کرایہ کی رقم نصاب تک پہنچ جائے اور ایک مکمل سال بھی گزر جائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر پراپرٹی مکان، دکان، یا زمین کی صورت میں کرایے پر دی گئی ہو تو اس میں زکاۃ
نہیں ہے، البتہ ان سے حاصل ہونے والے کرایے پر زکاۃہو گی ، بشرطیکہ کرایے کی رقم
سے اس قدر رقم ہو جائے جو نصاب کو پہنچتی ہو اور اس پر ایک سال بھی پورا ہو جائے"
انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " ( 14 / 167 )
لہذا سوال میں مذکور مکان پر زکاۃ نہیں ہے، تاہم نصاب مکمل ہونے کے بعد ایک سال تک جمع ہونے والے کرایے پر زکاۃ ہوگی، نقدی رقم کیلئے نصاب 595 گرام چاندی ہے۔
مزید کیلئے فتوی نمبر: (223513) دیکھیں۔
دوم:
والد کی طرف سے بیٹے پر زکاۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ وہی دے گا جو مال کا مالک ہے، لیکن اگر بیٹا اپنے والد کیساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کی طرف سے زکاۃ ادا کر دیتا ہے تو اس میں کوئی مانع بھی نہیں ہے، بشرطیکہ خود زکاۃ ادا کرنے کیلئے والد سے اجازت لے۔
اس بارے میں پہلے فتوی نمبر: (130572) اور (177415) میں تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے۔
واللہ اعلم.