"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک نمازی کو اپنے سجدوں کی تعداد پر شک گزرا اور پھر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے فتوی پر عمل کرتے ہوئے یقین کو بنیاد بنایا اور ایک سجدہ زیادہ کیا، پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اس لئے سلام کے بعد سجدہ سہو بھی نہیں کیا، تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟
الحمد للہ.
اول:
جس شخص کو نماز کے سجدوں کے بارے میں شک گزرے کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے یا دو سجدے؟ تو پھر وہ یقینی بات پر اعتماد کریگا اور وہ کم تعداد ہے، چنانچہ ایک سجدہ شمار کر کے دوسرا سجدہ کرے، اور پھر افضل پر عمل کرتے ہوئے سلام سے قبل سجدہ سہو کرے، یہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ کو نماز میں شک گزرے تو وہ سجدہ کرے اور یقین کو بنیاد بنائے، چنانچہ اگر اسے شک ہو کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے یا دو ؟ تو وہ دوسرا سجدہ کرے چاہے یہ شک پہلی، دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت میں واقع ہو، اور پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لے، اور اگر سلام کے بعد بھی سجدہ سہو کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سلام سے پہلے افضل ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (30/11)
کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر رکن چھوٹ جانے کے بارے میں شک ہو جیسے کہ نماز کی رکعات ہیں تو پھر کم یا زیادہ کسی بھی تعداد پر احتمال یقین کی حد تک نہ پہنچے تو پھر کم ترین تعداد کو یقینی مانیں گے، چنانچہ اس صورت میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جائے گا۔
اور اگر کم یا زیادہ کسی بھی تعداد کے بارے میں یقین حاصل ہو جائے تو اسی کو بنیاد بنایا جائے گا اور سجدہ سہو سلام کے بعد ہو گا۔
مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصنف کی بات: "رکن رہ جانے کے بارے میں شک کا حکم چھوٹ جانے والا ہی ہے" یہی [حنبلی] مذہب ہے، اور اکثر [حنبلی فقہائے کرام] اسی کے قائل ہیں، بلکہ بہت سے فقہا نے اسی کا قطعی فیصلہ دیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: قیاس کی وجہ سے رکن کی ادائیگی میں شک رکعت کی ادائیگی میں شک کی طرح ہے، اس لیے یقینی بات تلاش کرے اور پھر ظن غالب کے مطابق عمل کرے" انتہی
" الانصاف " (2/150)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصنف کی بات: "رکن رہ جانے کے بارے میں شک کا حکم چھوٹ جانے والا ہی ہے" یعنی اگر کسی شخص کو یہ شک لاحق ہوا کہ اس نے رکن ادا کیا ہے یا نہیں؟ تو پھر اس کا حکم چھوڑنے والا ہی ہوگا۔
اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک شخص دوسری رکعت میں کھڑا ہو گیا؛ اور شک میں پڑ گیا کہ کیا اس نے ایک سجدہ کیا تھا یا دو؟۔۔۔
تو ایسی صورت میں شک کا حکم رکن چھوٹ جانے کا حکم ہی ہوگا؛ کیونکہ "عدم الفعل" اصل ہے۔
جب یہ شک پیدا ہو کہ اس نے رکن ادا کیا ہے یا نہیں؟ لیکن غالب گمان یہی رہے کہ اس نے ادا کیا ہے ؛ تو راجح موقف کے مطابق غالب گمان کے مطابق ہی حکم لگے گا، یعنی اسے حکماً رکن کی ادائیگی کرنے والا سمجھا جائے گا، چنانچہ وہ دوبارہ رکن ادا نہ کرے؛ کیونکہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص رکعات کی تعداد میں شک کرے تو وہ ظن غالب کو بنیاد بنائے گا، تاہم اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا" انتہی
" الشرح الممتع " (3/384)
دوم:
اہل علم نے صراحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ جس شخص نے بھول کر سجدہ سہو بھی ترک کر دیا تو فاصلہ زیادہ نہ ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کر لے، اور اگر فاصلہ زیادہ ہو گیا تو پھر سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا، اور اس کی نماز صحیح ہوگی۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر سلام کرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنا بھول جائے تو وجوبی طور پر سجدہ سہو کی قضا دے اگر سجدہ واجب ہے[کسی واجب عمل کے ترک کرنے پر لازم ہوا ہو] اگر اس کے بعد کی نماز شروع کر لی تو پھر یہ نماز مکمل کر کے سجدہ سہو کرے؛ بشرطیکہ وقفہ کم ہو، وضو باقی ہو، اور مسجد سے باہر نہ نکلا ہو، لیکن اگر عرف کے مطابق وقفہ زیادہ ہو، یا وضو ٹوٹ جائے، یا مسجد سے باہر نکل جائے تو پھر سجدہ سہو کی قضا نہیں دے گا؛ کیونکہ سجدہ سہو فوت ہو گیا ہے، تاہم اس کی نماز صحیح ہوگی؛ جیسے کہ دیگر واجبات بھول جانے پر نماز صحیح ہوتی ہے" انتہی
"شرح منتهى الإرادات " (1/235)
اور جاہل کا حکم بھی بھول جانے والے کی طرح ہوتا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی -دوسرا ایڈیشن- (6/10) میں ہے کہ:
"اگر سجدہ سہو عمداً ترک کرے تو پھر نماز باطل ہو جائے گی اور اسے نماز دوبارہ ادا کرنی ہوگی، تاہم اگر سجدہ سہو بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے نہ کرے تو وہ دوبارہ نماز نہیں پڑھے گا، اس کی نماز صحیح ہے" انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
"اگر نماز میں کوئی رکعت کم یا زیادہ ہو جائے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے تو کیا اس طرح نماز باطل ہو جائے گی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس بارے میں قدرے تفصیل ہے:
اگر اس شخص نے جان بوجھ کر سجدہ سہو ترک کیا اور اسے شرعی حکم کا علم بھی تھا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔
تاہم اگر شرعی حکم کے بارے میں جاہل تھا یا بھول گیا تو پھر اس کی نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ اس کی نماز درست ہے۔۔۔" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " از: ابن باز
واللہ اعلم.