"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا یہ جائز ہے کہ قسم کا کفارہ دینے کے لیے ہوٹل سے تیار کھانا خرید لوں اور کفارے میں کھلا دوں، یا پھر فطرانے کی طرح چاولوں کا تھیلا ہی دینا ہو گا؟
الحمد للہ.
اللہ تعالی نے قسم کا کفارہ اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے کہ:
لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ
ترجمہ: اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کا لباس ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ [المائدہ: 89]
تو واجب یہ ہے کہ تین یعنی کھانا کھلانا، لباس پہنانا، یا غلام آزاد کرنے میں سے کوئی ایک کام کرے، اگر کوئی مسلمان ان تینوں میں سے کوئی ایک کام کر لیتا ہے تو یہ اس کے لیے کافی ہو گا، اور اگر ان میں سے کسی کی بھی استطاعت نہ ہو تو روزوں کی جانب منتقل ہو جائے گا۔
ان تینوں کاموں سے متعلق تفصیلات پہلے سوال نمبر: (45676 ) کے جواب میں ذکر کر آئے ہیں۔
اگر کوئی مسلمان کھانا کھلانے کا انتخاب کرتا ہے توا س کے پاس دو اختیارات ہیں:
چاہے تو مساکین کو اناج کی شکل میں غلہ دے دے ، جیسے کہ چاولوں کا تھیلا وغیرہ، یا پھر انہیں کھانا پکا کر کھلا دے، یا پھر گھر میں کھانا تیار کروائے اور دس مساکین کو گھر میں کھانے کی دعوت دے دے، تو ہر طریقہ کار درست ہو گا، اس کے متعلق اہل علم نے صراحت کے ساتھ وضاحت کی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" کفارے اور نفقہ کے بارے میں قرآن و سنت میں ہے کہ: کھانا کھلانا ہے، کھانے کا مالک بنانا مطلوب نہیں ہے۔ [یعنی: مسکین کو کھانا کھلا دیں، یہ شرط نہیں ہے کہ مسکین کو اناج دے کر اس کا مالک بنائیں۔ لہذا اگر کھانا بنا کر کھلا دیں تو یہ بھی جائز ہے۔] انہوں نے مزید کہا کہ: یہی طریقہ کار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے سیدنا علی، ابن مسعود، ابن عمر، اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے اس عمل کا تذکر ہ بھی کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ: اہل مدینہ، عراق، اور امام احمد سے دو روایات میں سے ایک یہی منقول ہے کہ ۔۔۔اللہ تعالی نے اناج یا غلے کا نام لینے کی بجائے مصدر یعنی کھانا کھلانے کا ذکر کیا ہے، اس لیے یہ آیت اس بارے میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ جب کوئی مسکین کو کھانا کھلانا کھلا دے، اناج یا غلہ ان کے ہاتھ میں نہ دے کر مالک نہ بھی بنائے تو اس نے حکم کی تعمیل کر دی ہے، اور ہر زبان و ثقافت میں اس کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ اس نے کھانا کھلا دیا ہے۔" ختم شد
زاد المعاد (5/441-445)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"قسم کے کفارے میں آپ کے لیے کافی ہے کہ آپ دس مساکین کو دوپہر کا کھانا کھلائیں یا رات کا کھانا کھلا دیں، یا ہر مسکین کو نصف صاح گندم یا چاول دے دیں، یا اس کے علاوہ کوئی بھی اناج جو عام طور پر کھایا جاتا ہے دے دیں۔ " ختم شد
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
الشيخ عبد الله بن قعود الشيخ عبد الله بن غديان الشيخ عبد الرزاق عفيفي الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى اللجنة الدائمة (23/10)
قسم کے بارے میں فتوی کمیٹی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ: کیا کفارے میں پکا ہوا کھانا دینا لازم ہے یا پھر گندم اور چاول کی صورت میں خشک اناج بھی دیا جا سکتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"دونوں طرح ہی ٹھیک ہے، اگر کھانا بنا کر دس مساکین کو دعوت دے دے، یا پانچ صاع اناج دے دے کہ ہر غریب شخص کو آدھا صاع ملے تو یہ بھی کافی ہے۔" ختم شد
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
الشيخ عبد الله بن قعود الشيخ عبد الله بن غديان الشيخ عبد الرزاق عفيفي الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى اللجنة الدائمة (14/23)
فتوی کمیٹی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
ایک شخص پر قسم کا کفارہ لازم ہے، تو اس نے ایک ہوٹل والے کو 50 ریال دے دیے کہ 10 مساکین کو کھانا کھلا دے؛ کیونکہ ہوٹل والے نے بتلایا تھا کہ ایک شخص کا کھانا 5 ریال کا ہوتا ہے تو کیا یہ ٹھیک ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"دس مساکین کو کھانا کھلانا قسم کا کفارہ ہے، ہر مسکین کو اناج کا نصف صاع ملے گا، یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو، یا پھر 10 مساکین کو لباس دیں ہر مسکین کو ایک سوٹ، یا پھر ایک غلام آزاد کریں، اور اگر ان تینوں میں سے کسی کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر 3 دن کے روزے رکھے۔
اور اگر ہوٹل والے کو اس قسم توڑنے والے نے اپنا وکیل مقرر کیا ہے تو پھر اس نے اپنے ذمہ دس مساکین کے کھانے کا کفارہ ادا کر دیا ہے اور یہ کافی ہو گا۔ اس پر اللہ کا شکر ہے۔" ختم شد
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
الشيخ بکر ابو زید الشيخ عبد العزیز آل الشیخ الشيخ صالح الفوزان الشیخ عبد اللہ غدیان الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى اللجنة الدائمة (23/121)
تو اس تفصیل سے واضح ہوا کہ جب آپ ہوٹل سے کھانا خرید کر دس مساکین کو دے دیتے ہیں تو یہ قسم کے کفارے کے لیے کافی ہو گا۔
واللہ اعلم