"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرا سوال اس متعلق ہے کہ کیا درج ذیل حدیث کے مطابق شک کرنے والے کو دنیا میں عذاب ہو گا یا وہ کفر پر مرے گا؟
"تو جس وقت یہ لوگ اپنی قبروں میں داخل ہوں گے اور جن چیزوں میں وہ شک کرتے تھے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ جب ان میں سے ہر ایک کے پاس دو فرشتے آ کر پوچھیں گے: (تو کن میں سے تھا؟ تو وہ کہے گا: مجھے نہیں معلوم۔ پھر اسے کہا جائے گا: اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ تو وہ کہے گا میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تھا وہی میں کہتا تھا۔ تو پھر اس کیلئے جنت کی جانب [کھڑکی ]کھول دی جاتی ہے، تو وہ جنت کے پھول اور جنت کی اشیا کا نظارہ کرنے لگتا ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: "جس چیز کو اللہ تعالی نے تم سے موڑ دیا ہے اسے دیکھ لو" پھر اس کیلیے جہنم کی جانب [کھڑکی ] کھول دی جاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ آگ ایک دوسرے کو ہڑپ کر رہی ہے، تو اسے کہا جاتا ہے: "یہ تمہارا ٹھکانہ ہے؛ کیونکہ تو شک کرتا تھا اور اسی پر تیری موت ہوئی، اور اسی پر تجھے -ان شاء اللہ-اٹھایا جائے گا ") ابن ماجہ
الحمد للہ.
جو شخص اللہ تعالی کے بارے میں یا فرشتوں، رسولوں، مرنے کے بعد جی اٹھنے ، یا جنت یا جہنم یا کسی ایسی چیز کے بارے میں شک کرتا ہے جو اسے اللہ تعالی کی جانب سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بتلائی گئی ہے تو وہ کافر ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا * وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا * قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا) ترجمہ: اور وہ اپنے باغ میں داخل ہوا تو وہ اپنی جانب پر ظلم کرنے والا تھا، اس نے کہا: مجھے نہیں لگتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو گا! اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت قائم ہو گی، اور اگر مجھے اپنے رب کے پاس لوٹا بھی دیا گیا تو مجھے ضرور بہ ضرور اس باغ سے بھی اچھا باغ ملے گا، تو اس کے ساتھی نے ا سے گفتگو کرتے ہوا کہا: کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر تمہیں نطفے سے بنا کر کڑیل مرد بنا دیا۔[الكهف:35 – 37]
چنانچہ مسلم (27) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، کوئی بھی شخص اللہ تعالی کو ان دو گواہیوں کے ساتھ ایسے ملے کہ اسے ان میں کوئی شک نہ ہو تو وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا)
ایسے ہی صحیح بخاری : (86)اور مسلم : (905) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (میری طرف وحی کی گئی ہے کہ قبر میں تمہارا امتحان لیا جائے گا ، کہا جائے گا: تم اس شخص کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو پختہ یقین والا یا مومن شخص کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول محمد ہیں، وہ ہمارے پاس واضح نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے ان کی بات تسلیم کی اور ان کی اتباع کی، وہ محمد ہیں۔ مومن یہ بات تین بار کہے گا۔ پھر اسے کہا جائے گا: نیک آدمی کی طرح سو جاؤ، ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ تم ان پر پختہ یقین رکھنے والے ہو، جبکہ منافق یا شک و شبہے میں پڑا ہوا شخص کہے گا: مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوا سنا تھا تو میں نے بھی وہی کہہ دیا تھا)
شیخ عبدالعزیز راجحی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان شک کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے، جب انسان اللہ تعالی کے بارے میں یا فرشتوں، آسمانی کتابوں ، رسولوں یا جنت اور جہنم کے بارے میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے، مثلاً وہ کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم کہ کوئی جنت ہے بھی سہی یا نہیں!؟ کوئی جہنم نامی چیز ہے بھی سہی یا نہیں! اس شک کی وجہ سے انسان کافر ہو جاتا ہے" ختم شد
ابن ماجہ (4268) کی روایت اسی معنی پر محمول ہو گی جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (میت قبر میں چلی جاتی ہے تو نیک آدمی کو اس کی قبر میں ڈرائے دھمکائے بغیر بٹھایا جاتا ۔۔۔) اس حدیث میں آگے چل کر یہ الفاظ ہیں: (اور برے آدمی کو اس کی قبر میں ڈرا دھمکا کر بٹھایا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: تو کن میں سے تھا؟ تو وہ کہے گا: مجھے نہیں معلوم۔ پھر اسے کہا جائے گا: اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ تو وہ کہے گا میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تھا وہی میں کہتا تھا۔ تو پھر اس کیلئے جنت کی جانب [کھڑکی ]کھول دی جاتی ہے، تو وہ جنت کے پھول اور جنت کی اشیا کا نظارہ کرنے لگتا ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: "جس چیز کو اللہ تعالی نے تم سے موڑ دیا ہے اسے دیکھ لو" پھر اس کیلیے جہنم کی جانب [کھڑکی ] کھول دی جاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ آگ ایک دوسرے کو ہڑپ کر رہی ہے، تو اسے کہا جاتا ہے: "یہ تمہارا ٹھکانہ ہے؛ کیونکہ تو شک کرتا تھا اور اسی پر تیری موت ہوئی، اور اسی پر تجھے -ان شاء اللہ-اٹھایا جائے گا۔) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح کہا ہے۔
علامہ سندھی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ جو شخص دنیا میں پختہ یقین پر ہو تو عام طور پر اس کی موت بھی یقین پر ہی آتی ہے، اور یہی معاملہ شک کی صورت میں بھی ہوتا ہے" ختم شد
" حاشية السندي على ابن ماجة " (2/ 568)
چنانچہ جو شخص کسی بھی ایمانی بنیاد کے بارے میں شک کرے اور اسی شک کی حالت میں اس کی موت آ جائے تو وہ کافر ہے دائمی طور پر جہنم میں ہو گا، اللہ تعالی اپنے بندوں سے یقینی ایمان کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں فرماتا۔
واللہ اعلم.