"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كوئى شخص بنك ميں ركھى گئى رقم پر فائدہ لينے كا عادى ہو چكا تھا اور بالآخر اسے علم ہوا كہ ايسا كرنا حرام ہے، تو اس نے فائدہ لينا ترك كر ديا، اور اس كے بعد اس نے محسوس كيا كہ توبہ كى شرائط پورى كرتے ہوئے يہ مال چندہ ميں دے دے، ليكن اسے دو قسم كى مشكلات كا سامنا ہے:
1 - پہلى مشكل يہ ہے كہ سابقہ دور ميں بنك سے ليے گئے فائدہ كى صحيح رقم كا حساب نہيں لگا سكتا.
2 - دوسرى مشكل يہ ہے كہ اس وقت اس كى جمع كردہ رقم اس رقم سے كم ہے جو اس نے بنك سے سابقہ سالوں ميں بطور فائدہ حاصل كى تھى.
مندرجہ بالا بيان كى روشنى ميں مندرجہ ذيل سوالات كے جوابات ديے جائيں:
1 - كيا اس شخص كى توبہ كے ليے شرط ہے كہ وہ اس فائدہ كى سارى اور صحيح رقم خيرات كرے جو اس نے بنك سے بطور فائدہ حاصل كيا تھا؟
2 - اگر سابقہ سوال كا جواب اثبات ميں ہو تو كيا اس پر واجب ہے كہ اس كے پاس جتنى رقم بھى متوفر ہو فورا خيرات كردے؟ ( اپنى اور اہل و عيال كى اساسى ضروريات پورى كرنے كے بعد ) مثلا كيا يہ شخص ايسى اشياء خريد سكتا ہے جو ضروريات ميں شامل نہيں ہوتيں ( رہائش، كھانے پينے اور لباس، دوائى اور منتقل ہونے كے علاوہ ) ليكن يہ اشياء اہميت سے خالى نہيں ( مثلا كمپيوٹر ) ؟
3 - اگر سوال كے دوسرے حصہ كا جواب اثبات ميں ہو تو كيا يہ شخص بنك سے حاصل كردہ فائدہ كے برابر مال خيرات كرنے سے قبل اس رقم سے جو بھى اس كے پاس متوفر ہو حج كر سكتا ہے ؟
الحمد للہ.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ سود كھاتے ہيں وہ اسى طرح كھڑے ہونگے جس طرح شيطان كے چھونے سے خبطى بن جانے والا شخص كھڑا ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ وہ يہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود كى طرح ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت كو حلال كيا اور سود حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كى طرف ہے، اور جو پھر دوبارہ ( حرام كى طرف ) لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہميشہ ہى اس ميں رہيں گے البقرۃ ( 275 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كى طرف ہے
يعنى جس تك يہ بات پہنچ گئى كہ اللہ تعالى نے سود سے روك ديا ہے تو وہ اپنے تك شريعت كے پہنچتے ہى اس سے باز آ گيا تو جو معاملہ پہلے ہو چكا وہ اس كے ليے ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: جو كچھ گزر چكا اللہ تعالى نے اسے معاف كرديا"
اور جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى فتح مكہ والے دن فرمايا:
" جاہليت كا سارا سود ميرے ان قدموں كے نيچے ركھ ديا .... "
( لہذا جب سودى لين دين كرنے والوں كى جو رقم اصل مال سے زيادہ تھى اسے ختم كرديا گيا تو ) دور جاہليت ميں لى گئى زيادہ رقم كو واپس كرنے كا حكم نہيں ديا گيا.
( قولہ ) عفا ( اللہ ) عما سلف : جو كچھ ہو چكا اللہ تعالى نے معاف كرديا، يہ اللہ تعالى كے ( اس فرمان كى طرح ہى ) ہے:
تو اس كے ليے وہى ہے جو گزر چكا اور اس كا معاملہ اللہ كى طرف
سعيد بن جبير اور سدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كے ليے وہى ہے جو گزر چكا: ( يعنى )حرمت سے قبل جو سود كھايا كرتا تھا.
ديكھيں: تفسير ابن كثير بين القوسين عبارت وضاحت كے ليے ہے.
اوراس بنا پر آپ كے ليے وہ مال واپس كرنا لازم نہيں جو آپ نے حرمت معلوم ہو جانے سے قبل حاصل كيا تھا، ليكن جو سود آپ نے حرمت كا علم ہو جانے كے بعد وصول كيا ہے اگر تو وہ مال آپ كے پاس باقى ہے تو اسے واپس كرنا واجب ہے، اور اگر وہ مال آپ كے مال ميں مل گيا ہے اور آپ اس كا بالتحديد علم نہيں ركھتے تو آپ اس كا اندازہ لگائيں اور جو غالب ظن ہو اسے نكال ديں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 824 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ہم اللہ تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ ہم سب كى توبہ قبول فرمائے اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .