"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مجھے شفاعت کے بارے میں دو مختلف باتیں سننے کو ملتی ہیں ، ایک یہ کہ شفاعت صرف اللہ تعالی کی ملکیت ہے لہذا شفاعت صرف اللہ تعالی سے ہی مانگی جائے گی، جبکہ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے حق شفاعت اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ، اور نیک لوگوں کو دیا ہے اس لیے ان سے شفاعت کا مطالبہ کرنا بھی درست ہے، تو ان دونوں باتوں میں سے صحیح بات کیا ہے، شرعی دلائل کس موقف کی تائید کرتے ہیں دلائل کی رو سے وضاحت فرما دیں۔
الحمد للہ.
اول:
کسی کے فائدے یا نقصان سے بچاؤ کے لیے درمیان میں ثالثی کا کردار ادا کرنا شفاعت یا سفارش کہلاتا ہے۔
اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو قیامت کے دن آخرت میں ہو گی۔
دوسری قسم: اس سے مراد ایسی سفارش یا شفاعت ہے جو دنیاوی امور میں کی جاتی ہے۔
قیامت کے دن آخرت میں ہونے والی شفاعت یا سفارش پھر دو قسم کی ہے:
اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہو گی اس میں آپ کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہو گا، اس کی پھر مزید اقسام ہیں:
پہلی قسم: شفاعت عظمی:
اسی سے مراد مقام محمود ہے ، جس کا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وعدہ کیا ہوا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمِنْ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ آپ کے لئے اضافی ہے، عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔ [بنی اسرائیل: 79]
اس شفاعت میں یہ ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ساری خلقت کے لیے اس وقت شفاعت کریں گے جب اللہ تعالی حساب شروع نہیں فرمائے گا، اور ارض محشر میں ساری خلقت حساب کے لیے انتظار کر رہی ہو گی، اور انتظار کرتے کرتے ان کی کیفیت ایسی ہو جائے گی کہ اب ان سے مزید انتظار کرنا ممکن نہیں رہے گا تو پھر سب لوگ کہیں گے: کوئی ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں فیصلوں کے آغاز کے لیے شفاعت کرے؟ کیونکہ لوگ ارض محشر سے نکلنا چاہتے ہیں۔ تو لوگ باری باری تمام انبیائے کرام کے پاس جائیں گے اور ہر نبی یہی کہے گا کہ: میرے اندر اتنی سکت نہیں ہے۔ آخر کار لوگ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر عرض کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمائیں گے: میں اس کا اہل ہوں، میں اس کا اہل ہوں۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم شفاعت کریں گے اور لوگوں کے فیصلوں کا آغاز ہو گا۔ تو یہ شفاعت عظمی ہے، اور شفاعت کی یہ قسم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہے۔
شفاعت عظمی پر دلالت کرنے والی احادیث صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری: (1748) میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (قیامت کے دن لوگ گروہ در گروہ آئیں گے۔ ہر گروہ اپنے نبی کے پیچھے ہو گا، اور ( اپنے اپنے نبی سے ) کہے گا: اے فلاں ! ہماری شفاعت کرو [لیکن سب ہی انکار کر دیں گے ] آخر میں شفاعت کے لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ وقت ہے جب اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا)
دوسری قسم: اہل جنت کے لیے جنت میں داخلے کی شفاعت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا تو جنت کا چوکیدار کہے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: محمد ہوں۔ تو وہ کہے گا: آپ ہی کے لیے دروازہ کھولنے کا مجھے کہا گیا ہے، آپ سے پہلے کسی کے لیے جنت کا دروازہ نہیں کھولوں گا۔) مسلم: (333)
صحیح مسلم: (332) ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ: (میں -محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی -جنت میں داخلے کے متعلق سب سے پہلے شفاعت کروں گا۔)
تیسری قسم: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنے چچا ابو طالب کے لیے شفاعت
اس حوالے سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (امید ہے کہ قیامت کے دن انہیں میری شفاعت سے کچھ فائدہ ہو گا تو انہیں جہنم کی اتنی آگ میں رکھا جائے گا جو ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی، اور اسی سے ان کا دماغ کھولے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1408) اور مسلم : (360) نے روایت کیا ہے۔
چوتھی قسم: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی امت میں سے کچھ لوگوں کے لیے بغیر حساب جنت میں داخل ہونے کی شفاعت
کچھ اہل علم نے شفاعت کی یہ قسم بھی ذکر کی ہے اور اس شفاعت کے متعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث کو دلیل بنایا ہے، اس میں ہے کہ: (پھر کہا جائے گا: اے محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – اپنا سر اٹھائیں، جو مانگو گے دیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ تو پھر میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: میری امت یا رب! میری امت یا رب! میری امت یا رب! تو پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنی امت میں سے انہیں جنت کے دائیں دروازے سے داخل کر دو جن کا حساب نہیں ہونا، جبکہ جنت کے دیگر دروازوں سے داخلے کے بھی اسی طرح حقدار ہیں جیسے دوسرے لوگ ہیں۔ ) اس حدیث کو امام بخاری: (4343) اور مسلم : (287) نے روایت کیا ہے۔
شفاعت کی اس قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہر وہ شامل ہو گا جسے شفاعت کے لیے اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل ہو گی چاہے وہ فرشتوں ، یا نبیوں یا نیک لوگوں سے تعلق رکھتا ہو، اس قسم کی بھی مزید اقسام ہیں:
پہلی قسم:
جہنم میں جانے والے لوگوں کے لیے جنت میں داخلے کی شفاعت، اس کے متعلق بھی دلائل بہت زیادہ ہیں، مثلاً:
صحیح مسلم: (269) کی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوعاً حدیث ہے: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے کے لیے اس قدر اللہ سے منت اور آہ و زاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب !وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے ، نمازیں پڑھتے اور حج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو ، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔۔۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی ، انبیائے کرام نے سفارش کی اور اہل ایمان نے بھی سفارش کر دی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تو وہ آ گ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا ہو گا۔)
دوسری قسم: جن لوگوں بارے میں فیصلہ ہو چکا کہ وہ جہنم میں جائیں گے، شفاعت کی یہ قسم ان لوگوں کے لیے خاص ہو گی کہ انہیں جہنم میں نہ ڈالا جائے، اس کے لیے دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے لی جا سکتی ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان فوت ہو جائے اور اس کے جنازے میں 40 لوگ ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالی ان سب کی اس میت کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔) صحیح مسلم: (1577) تو یہ شفاعت میت کے جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہے، اور اللہ تعالی ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا۔
تیسری قسم: جنت میں چلے جانے والے اہل ایمان کے لیے جنت میں بلندی درجات کی شفاعت، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث میں ہے جسے امام مسلم: (1528) نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی اور کہا: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِيْ سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّيْنَ، وَاخْلُفْهُ فِيْ عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِيْنَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ، وَافْسَحْ لَهُ فِيْ قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيْهِ ترجمہ: یا اللہ! ابو سلمہ کی مغفرت فرما، اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند فرما، اس کے پسماندگان کی کفالت فرما، یا رب العالمین! ہمیں بھی بخش دے اور اسے بھی بخش دے۔ اس کی قبر وسیع فرما دے اور اس کی قبر کو منور فرما دے۔
دلائل کی رو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آخرت میں شفاعت شرائط کی موجودگی میں ہی ہو گی، جو کہ درج ذیل ہیں:
1-جس کے لیے شفاعت کی جائے ، اس کے لیے شفاعت پر اللہ تعالی کی اجازت ہو؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى ترجمہ: اور وہ اسی کے لیے ہی شفاعت کریں گے جن کے لیے اللہ راضی ہو گا۔ [الانبیاء: 28]
تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ شفاعت کا حقدار وہی شخص بنے گا جو توحید پرست ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی مشرک کے لیے شفاعت پسند نہیں فرماتا۔ اسی بارے میں صحیح بخاری: (97) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت پانے والا سعادت مند ترین شخص کون ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ابوہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا؛ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت کے دن میری شفاعت پانے والا سب سے سعادت مند شخص وہ ہو گا، جس نے سچے دل سے یا سچے جی سے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا۔
2-شفاعت کنندہ کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ترجمہ: کون ہے جو اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے؟[البقرۃ: 255]
3- اللہ تعالی خود شفاعت کنندہ سے راضی ہو؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کے فرمان میں ہے کہ: وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَى ترجمہ: آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے اس فرشتے کو اس کا اذن دے اور وہ سفارش اسے پسند بھی ہو ۔[النجم: 26]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ لعنت کرنے والے لوگوں کو قیامت کے دن سفارش کا موقع نہیں دیا جائے گا، جیسے کہ صحیح مسلم: (4703) میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (یقیناً لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ تو شفاعت کرنے والوں میں شامل ہوں گے نہ ہی شہادت دینے والوں میں۔)
یہ بھی دو قسم کی ہوتی ہے:
پہلی قسم: کسی ایسے کام کے لیے شفاعت کرنا جو انسان کی صلاحیت اور استطاعت میں ہو، تو یہ شفاعت یا سفارش دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1-کسی جائز کام کے لیے سفارش کی جائے، لہذا کسی ایسے کام کے لیے سفارش جائز نہیں ہو گی جس کی وجہ سے کسی کے حقوق تلف ہوں، یا کسی پر ظلم ہو، اسی طرح کسی حرام چیز کے حصول کے لیے بھی شفاعت کرنا صحیح نہیں ہو گا، مثلاً: کوئی کسی ایسے شخص کے بارے میں شفاعت کرے جس پر شرعی حد لاگو کی جانی ہو کہ اس پر حد نہ لگائی جائے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور جارحیت کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔ [المائدۃ: 2]
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: "چوری کرنے والی مخزومیہ لڑکی کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کون کرے ؟ آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت عزیز ہیں، ان کے سوا اور کوئی اس بات کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں کچھ بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کے خلاف سفارش کرتا ہے؟) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا: (پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں) اس حدیث کو امام بخاری: (3261) اور مسلم : (3196) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری : (5568) اور مسلم: (4761) میں سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو اپنے ہم نشین لوگوں سے فرماتے: (سفارش کرو، تمہیں اجر دیا جائے گا، اور اللہ تعالی اپنے نبی کی زبان پر جو فیصلہ کروانا چاہے گا کروا لے گا۔)"
2-اپنی مراد پانے کے لیے یا مشکل کشائی کے لیے دلی طور پر اعتماد صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات پر کرے، اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ سفارش کنندہ محض ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے جسے اپنانے کا اللہ تعالی نے اذن دیا ہے، جبکہ نفع و نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اس شرط کے دلائل بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں بالکل واضح ہیں۔
چنانچہ دنیاوی امور سے متعلقہ سفارش میں یہ دو شرطیں نہیں پائی جاتیں تو سفارش کرنا ممنوع قرار پائے گا۔
دوسری قسم: ایسا کام جو انسان کے بس سے باہر ہو، انسان اسے کر ہی نہ سکے مثلاً: مردوں اور فوت شدگان سے سفارش طلب کرنا، یا کسی زندہ لیکن غیر حاضر شخصیت سے سفارش کا مطالبہ کرنا اور یہ نظریہ رکھنا کہ مطلوبہ شخصیت اس کی بات سن بھی رہی ہے اور اس کا مطالبہ بھی پورا کر دے گی، تو یہ شرکیہ شفاعت ہے۔ اسی قسم کی شفاعت کی تردید قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبویہ میں بھر پور انداز سے کی گئی ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی خاص صفات کے ساتھ مخلوق کو متصف سمجھا جا رہا ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالی ہی وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔
ایسی شفاعت کو جائز کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ: نیک اور پارسا لوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کے لیے شفاعت کریں گے، اسی طرح جو بھی ان سے دعائیں کروائے، ان کی ہمنوائی اور دوستی رکھے، ان سے محبت کرے تو ان سب کے لیے اولیائے کرام شفاعت کریں گے۔ حالانکہ یہی وہ شفاعت ہے جس کے قائل پہلے دور کے مشرکین تھے اور اللہ تعالی نے ان کے اس نظریے کو قرآن کریم میں بیان بھی کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: هؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ ترجمہ: یہ ہمارے اللہ تعالی کے ہاں سفارشی ہیں۔ [یونس: 18] مطلب یہ ہے کہ مشرکین فرشتوں اور نیک لوگوں سمیت دیگر معبودان باطلہ کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ ہماری سفارش اللہ تعالی کے ہاں کریں گے۔ اور یہی بات آج کل کے مشرکین بھی کہتے ہیں کہ: ہمارے اولیائے کرام ہماری شفاعت کریں گے، ہمارے اندر اتنی جسارت نہیں ہے کہ ہم براہ راست اللہ تعالی سے مانگیں بلکہ ہم اپنے اولیائے کرام سے مانگیں گے اور وہ اللہ تعالی سے لے کر ہمیں دیں گے۔ اس زمانے کے مشرکین کا یہ بھی کہنا ہے کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر تمام انبیائے کرام سمیت سب نیک لوگوں کو اللہ تعالی نے حق شفاعت دیا ہوا ہے، اس لیے ہم ان سے دعا کرتے ہیں کہ : آپ ہماری شفاعت کریں کہ اللہ تعالی نے آپ کو حق شفاعت دیا ہوا ہے۔ اس کے لیے دنیاوی بادشاہوں کی مثالوں کو بھی پیش کرتے ہیں کہ : دنیاوی بادشاہوں تک رسائی براہ راست ممکن نہیں ہوتی ، ان تک رسائی کے لیے سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی جب آپ کو بادشاہ سے کوئی کام ہو تو آپ بادشاہ کے دوستوں، قریبی لوگوں کو ذریعہ بنانے کے لیے کسی وزیر، چوکیدار، خادم یا شہزادے وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں، تو آپ پہلے ان کے سامنے اپنی عرضی رکھتے ہیں اور وہ پھر آپ کی عرضی بادشاہ کے سامنے پیش کرتے ہیں تا کہ آپ کی عرضی قبول ہو جائے مسترد نہ ہو، تو یہی طریقہ ہم اللہ تعالی سے دعاؤں کے لیے اپناتے ہیں چنانچہ ہم اللہ تعالی کے اولیاء اور اللہ تعالی کے مقرب سادات کو اپنا سفارشی بناتے ہیں۔ اس طرح لوگ اولین دور کے شرک میں ملوث ہو جاتے ہیں اور خالق کو مخلوق جیسا سمجھ بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالی نے سورت یاسین میں مومن بندے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا موقف بیان کیا کہ: أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ ترجمہ: کیا میں اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنالوں کہ اگر رحمٰن مجھے کوئی تکلیف دینا چاہے تو نہ ان کی سفارش میرے کسی کام آئے اور نہ ہی وہ خود مجھے چھڑا سکیں؟ [یس: 23]
پھر اللہ تعالی نے جہنمی کافروں کا خود اعترافی بیان بھی قرآن کریم میں ذکر کیا کہ جہنم میں جانے کے بعد کہیں گے: قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (٤٣) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (٤٤) وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (٤٥) وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ (٤٦) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (٤٧) فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
ترجمہ: وہ کہیں گے: ہم نمازیوں میں شامل نہیں تھے۔ [43] اور نہ ہی مساکین کو کھانا کھلاتے تھے [44] اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں ہی بناتے تھے۔ [45] اور ہم بدلے کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ [46] تا آں کہ ہمیں اسی حالت میں موت آ گئی ۔ [47] تو انہیں کسی شفاعت کنندہ کی شفاعت فائدہ نہیں دے گی۔ [المدثر: 43 - 48]
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی قیامت کے دن شفاعت کرنے کا حق حاصل ہو گا، لیکن اس حق کو استعمال کرنے کی اجازت تبھی ہو گی جب اللہ تعالی چاہے گا اور جس کے لیے چاہے گا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم نہیں دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دنیا میں شفاعت طلب کریں، نہ ہی کسی صحابی سے ایسی کوئی بات منقول ہے کہ کسی صحابی نے آپ سے دنیا میں شفاعت طلب کی ہو، اگر یہ خیر کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو ضرور بتلاتے اور اس کام کو کرنے کی دعوت بھی دیتے، پھر صحابہ کرام کی طرف سے اس پر عمل بھی ہوتا؛ کیونکہ صحابہ کرام خیر کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے؛ کیونکہ اس میں غیر اللہ سے دعا پائی جا رہی ہے، بلکہ یہ ایسا عمل ہے کہ قیامت کے دن حصولِ شفاعت میں رکاوٹ بنے گا؛ کیونکہ قیامت کے دن صرف اسی شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت حاصل ہو گی جو خالصتاً توحید پر قائم ہو۔
پھر قیامت کے دن میدان محشر میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فیصلوں کے آغاز کے لیے شفاعت کا مطالبہ اس لیے کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے سامنے موجود ہوں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس حالت میں ہوں گے کہ اللہ تعالی سے فوری سوال کر سکیں، لہذا میدان محشر میں شفاعت کا مطالبہ تو ایسے ہی ہے جیسے زندہ شخص سے جائز دعا کا مطالبہ کیا جائے جو کہ صحیح ہے۔
اسی لیے میدان محشر میں بھی کسی شخص کے متعلق ایسا نہیں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے گناہوں کی مغفرت کی شفاعت کرنے کا مطالبہ کرے۔
لہذا جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو میدان محشر میں حق شفاعت حاصل ہو گا اس لیے اب دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، تو ان پر لازم یہ آتا ہے کہ وہ صرف یہی کہہ کر شفاعت کا مطالبہ کریں کہ: "یا رسول اللہ ! فیصلوں کے آغاز کے لیے ہماری شفاعت کر دیجیے!!" لیکن یہ لوگ کچھ اور ہی کہتے ہیں؛ کیونکہ یہ محض شفاعت پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمیت دیگر مخلوق سے بھی مشکل کشائی، حاجت روائی، نزول رحمت، اور مختلف بحرانوں سے نکالنے کی دعا بھی کرتے ہیں!! ، بر ہو یا بحر، تنگی ہو یا فراخی ہر حالت میں ذات باری تعالی سے روگرداں رہتے ہیں، اور اللہ تعالی کے اس فرمان سے گریزاں ہوتے ہیں: أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ترجمہ: بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ تم لوگ تھوڑا ہی غور کرتے ہو۔ [النمل: 62]
مندرجہ بالا تفصیلات سے کسی بھی انصاف پسند شخص کے لیے واضح ہے کہ ثابت شدہ شفاعت بھی اللہ تعالی کی اجازت اور رضا سے مشروط شفاعت ہے؛ کیونکہ شفاعت ساری کی ساری اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔ لہذا دنیاوی امور سے متعلق شفاعت جو کسی زندہ اور صاحب صلاحیت مخلوق سے کی جائے وہ بھی اس میں شامل ہے کہ اللہ تعالی نے ہی اس کی اجازت دی ہے۔ تو یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیاوی امور میں شفاعت اور سفارش بھی اس لیے جائز ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی اجازت دی ؛ اور اس اجازت کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس میں مخلوق کے ساتھ ایسا قلبی تعلق نہیں ہوتا جیسا اللہ تعالی کے ساتھ ہونا چاہیے، اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ دنیاوی امور میں شفاعت بھی دیگر شرعاً جائز اسباب اور ذرائع اپنانے کے زمرے میں شامل ہوتی ہے کہ جنہیں انسان اپنے کاموں کو پورا کرنے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔
اور جس شفاعت سے روکا جاتا ہے اس سے مراد ایسے کام کے لیے مخلوق سے شفاعت طلب کرنا جسے پورا کرنے کی صلاحیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے پاس ہو؛ کیونکہ جب اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اسے پورا ہی نہیں کر سکتا تو پھر مانگنا بھی صرف اللہ تعالی سے چاہیے، اور اگر کوئی غیر اللہ کے سامنے اس کا مطالبہ رکھ بھی دے اور مخلوق اس کام کو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو تو جب تک اللہ تعالی کی اجازت شامل نہیں ہو گی اس وقت تک یہ صرف مطالبہ ہی رہے گا پورا نہیں ہو گا اور ایسا شخص اللہ تعالی کے مقام اور مرتبے کی گستاخی کر رہا ہے، اور اپنے آپ پر ظلم ڈھا رہا ہے، نیز اپنی اس حرکت سے قیامت کے دن نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت سے محروم ہو سکتا ہے۔
ہم اللہ تعالی سے عافیت اور سلامتی کے طلب گار ہیں، اور ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت قبول فرمائے۔ آمین
مراجع:
الشیخ ناصر الجدیع کی کتاب: "الشفاعة عند أهل السنة والجماعة"
"القول المفید" (1/423) از الشیخ محمد بن صالح عثیمین
"أعلام السنة المنشورة"، (144)
واللہ اعلم