"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
استطاعت ركھنے كے باوجود بغير كسى عذر كے حج ميں تاخير كرنے والے شخص كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
والصلاۃ والسلام على رسول اللہ:
اما بعد:
جو شخص استطاعت ركھنے كے باوجود بغير كسى عذر كے فرضى حج كى ادائيگى ميں تاخير كرتا ہے اس نے بہت بڑى اور عظيم غلطى اور معصيت كا ارتكاب كيا، اس پر واجب ہے كہ جتنى جلدى ہو سكے اللہ تعالى سےتوبہ كرے اور حج كى ادئيگى فورى طور پر كرے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى نے بيت اللہ كا حج فرض كيا ہے جو كوئى بھى اس تك پہنچنے كى استطاعت ركھے، اور جو كفر كے تو اللہ تعالى سب جہان والوں سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 ).
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ہے: يہ گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا اور بيت اللہ كا حج كرنا "
متفق عليہ، صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اور اس ليے بھى كہ حديث جبريل عليہ السلام ميں ہے جب انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اسلام كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى فرمايا تھا:ط
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم يہ گواہى دو كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور تم نماز كى پابندى كرو، اور زكاۃ ادا كرو، اور رمضان المبارك كے روزے ركھو، اور اگر بيت اللہ تك پہنچنے كى استعطاعت ركھو تو بيت اللہ كا حج كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 8 ).
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے. اھـ .