"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا اسلامى ممالك ميں موجود سودى لين دين كرنے والے بنكوں ميں كام كرنا جائز ہے؟ ميرا خاوند سودى لين دين كرنے والے ايك بنك ميں ملازم ہے، وہ ادارہ كى ٹكينكل معلومات كے متعلق كمپيوٹر پروگرامر كى حيثيت سے كام كرتا ہے، اور اس كا بنيادى كام سارے كمپيوٹر نظام كو صحيح شكل ميں ركھنا اور نئے پروگرام چلانے كے ساتھ بنك ملازمين كا تعاون ہے.
ميں جانتى ہوں كہ فوائد ( سود ) حرام ہيں, اور يہ بہت بڑى معصيت و گناہ ہے، ليكن ميں نے بنك ميں ملازمت كے متعلق بہت سارى آراء سنى ہيں، جن ميں سے يہ بھى ہے كہ بعض علماء كا كہنا ہے كہ:
( اگر آپ كا كام سيدھا اور ڈائريكٹ فوائد كے ساتھ وابستہ نہ ہو، اور بنك كے ليے ( فوائد كے علاوہ ) اور بھى آمدن كے ذرائع اور مصادر ہوں تو پھر بنك ميں ملازمت كرنى جائز ہے ).
ہمارى آمدن كا واحد ذريعہ يہى ہے جس پر اب تك ہمارى گزر بسر ہو رہى ہے، ميرى گزارش ہے كہ آپ مجھے يہ بتائيں كہ اس ملازمت كے ذريعہ ہمارى آمدن حرام ہے كہ حلال ؟
الحمد للہ.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو حق كى معرفت اور پہچان كى حرص ركھنےاس كى كوشش پر جزائے خير عطا فرمائے, اور آپ كے خاوند كو مباح اور جائز كام جس ميں كوئى گناہ نہ ہو كى توفيق عطا فرمائے.
آپ يہ جان ليں كہ سودى بنكوں ميں مطلق طور پر ملازمت جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سود خورى يا پھر سود لكھنا، يا اس پر گواہ بننا، يا سودى لين دين كرنے والے كے ساتھ تعاون ہے.
كبار اہل علم نے سودى بنكوں ميں ملازمت كى حرمت كا فتوى جارى كر ركھا ہے، اگرچہ كام يا ملازمت كا تعلق سود سے وابستہ اور ملا ہوا نہ بھى ہو، مثلا پہريدارى، يا صفائى اور خدمت وغيرہ.
ذيل ميں ہم چند ايك فتوى جات ذكر كرتے ہيں، اور يہ تنبيہ بھى كرتے ہيں كہ آپ كے خاوند كے كام اور ملازمت كا سود كے ساتھ گہرا اور قوى تعلق ہے اور اسے لكھنا اور اس كى توثيق بھى ہے، كيونكہ آپ كےقول كے مطابق:
اس كا بنيادى اور اساسى كام كمپيوٹر كے سارے نظام كى صحيح شكل ميں ضمانت دينا كہ وہ صحيح كام كر رہے ہيں، اور نئے پروگرام چلانا اور بنك كے ملازمين كا تعاون كرنا ہے.
مستقل فتوى كيمٹى كے فتاوى جات ميں ہے كہ:
( كسى بھى مسلمان شخص كے ليے سودى لين دين كرنے والے بنك ميں كام اورملازمت كرنا جائز نہيں، اگرچہ اس كے ذمہ لگايا گيا كام سودى نہ بھى ہو؛ اس ليے كہ اس سے وہاں سودى لين دين كرنے والے ملازمين كى ضروريات پورى ہوتى ہيں اور وہ اپنے سودى كاروبار ميں اس سے مدد اور تعاون ليتے ہيں.
حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو المائدۃ ( 2 ).
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 41 ).
مستقل فتاوى اور علمى ريسرچ كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
حالى اور موجودہ بنكوں ميں كام كرنے كا كيا حكم ہے؟
كميٹى كا جواب تھا:
موجودہ اور حالى قرضوں اور مالى اداروں اور بنكوں كے اكثر معاملات سود پر مشتمل ہيں، اور يہ كتاب و سنت اور امت كے اجماع سے حرام ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ حكم لگايا ہے كہ:
جو كوئى بھى سود خور اور سود كھلانے والے كى لكھنے يا گواہى دينے يا اس طرح كا كوئى اور كام كر كے تعاون كرے وہ سود خور اور سود كھلانے والے دونوں پر لعنت اور اللہ تعالى كى رحمت سے دورى ميں برابر كا شريك ہے.
لہذا صحيح مسلم وغيرہ ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانے والے، اور اسے لكھنے اور اس كى گواہى دينے والے پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: كہ يہ سب برابر ہيں"
اور جو لوگ مالى ادارے بنكوں ميں ملازمت اور كام كرتے ہيں وہ بنك والوں كے لين دين لكھنے يا گواہى دينے يا كاغذات منتقل كرنے يا رقم لينے اور دوسروں كو دينے ميں ان كے معاون و مددگار ہيں، جس ميں سودى لين دين كرنے اور سود خوروں كے ساتھ معاونت ہے.
اور اس سے يہ معلوم ہو جاتا ہے كہ: موجودہ مالى اداروں ميں ملازمت اور كام كرنا حرام ہے، لہذا مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اس سے اجتناب كرے، اور كمائى اور آمدن كےايسے طريقہ تلاش كرے جو اللہ تعالى نےاس كے ليے حلال اور مباح كيے ہيں، اور يہ طريقہ بہت زيادہ ہيں، اسے چاہيے كہ وہ اپنے پروردگار اور رب سے ڈرے اس كا تقوى اختيار كرے اور اپنے آپ كو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى لعنت كا مستحق نہ ٹھرائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 15 / 38 ).
اور مستقل فتوى كميٹى ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذيل سوالات كيے گئے:
( ا - كيا بنك ميں اور خاص كر اسلامى ممالك كے اندر بنكوں ميں ملازمت حلال ہے يا حرام؟
ب - كيا بنكوں ميں كچھ اقسام حلال بھى ہيں، جيسا كہ اب تردد ہو رہا ہے، اور جب صحيح ہو تو كس طرح ؟ )
كميٹى كا جواب تھا:
اول:
سودى لين دين كرنے والے بنكوں ميں ملازمت اور كام كرنا حرام ہے، چاہے وہ اسلامى ممالك ميں ہوں يا كسى كافر ملك ميں، كيونكہ اس ميں گناہ اور برائى اور ظلم و زيادتى ميں بنك كے ساتھ تعاون ہے جس سے اللہ تعالى نے اپنے اس فرمان ميں منع فرمايا ہے:
اور تم نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور برائى اور گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو المائدۃ ( 2 )
دوم:
جو كچھ ہميں شريعت مطہرہ سے پتہ چلا ہے اس كے مطابق سودى بنك كى كوئى بھى قسم مستثنى نہيں، كيونكہ برائى اور گناہ اور ظلم زيادتى ميں سب بنك ملازمين كا ايك دوسرے كے ساتھ تعاون پايا جاتا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 55 ).
اور كميٹى سے يہ بھى سوال كيا گيا كہ:
ايك اليكٹرانك آلات كى كمپنى جو سودى بنكوں كے ساتھ لين دين كرتى ہے ميں انجينئر كى حثيت سے ملازمت كرنے كا حكم كيا ہے, يہ كمپنى آلات ( كمپيوٹر، فوٹو سٹيٹ مشين، اور ٹيلى فون وغيرہ ) بنك كو فروخت كرتى ہے، اور ہمارا كام چند ايام كے بعد بنك جا كر ان آلات كى مرمت كرنا اور ان آلات كى تنصيب وغيرہ ہے، تو كيا يہ كام اس اساس كى بنا پر حرام ہے كہ بنك ان آلات كے ذريعہ اپنے معاملات كو منظم اورمرتب كرتا اور حساب وكتاب كرتا ہے، تو اس طرح ہم معصيت اور نافرمانى ميں اس كى معاونت كرتے ہيں؟ )
كميٹى كا جواب تھا:
( جس طرح آپ نے ذكر كيا ہے اس كےمطابق آپ كا يہ كام كرنا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ اور برائى اور ظلم و زيادتى ميں معاونت ہے )
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 15 / 18 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى ہے كہ:
( جو بنك سودى لين دين كرتے ہيں مسلمان شخص كے ليے اس ميں كام كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سودى لين دين اور معاملات ميں معاونت ہوتى ہے، يہ معاونت چاہے كسى بھى طريقہ سے ہو لكھ كر يا پھر گواہى اور پہرہ كے ذريعہ يا اس كے علاوہ كوئى اور تعاون كى صورت ميں اس ليے كہ اس ميں بنك كے ساتھ تعاون كرنا گناہ اور برائى اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے:
اور نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو المائدۃ ( 2 )
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 15 / 48 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:
كيا سودى ادارے اور ايجنسى ميں ڈرائيور يا چوكيدارى كى ملازمت كرنا جائز ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
سودى اداروں اورايجنسيوں ميں ملازمت اور كام كرنا جائز نہيں انسان چاہے ڈرائيور يا چوكيدار ہى كيوں نہ ہو، يہ اس ليے كہ اس كا سودى اداروں ميں ملازمت كرنے سے اس كى رضامندى لازم آتى ہے، كيونكہ جو كسى چيز كو ناپسند كرتا ہو وہ اس ناپسند كردہ چيز كى مصلحت كے ليے كام نہيں كرتا، لھذا جب وہ اس كى مصلحت كے ليے كام كرے گا تو پھر وہ اس سے راضى ہے، اور كسى حرام چيز پر رضامند ہونے والا شخص اس كا گناہ پاتا ہے، ليكن جو شخص بلا واسطہ خود ہى لكھے اور اسے احاطہ قيد ميں لائے اور روانہ اور وصول كرے يا اس طرح كے اور كام كرے تو بلاشك يہ حرام كو ڈائريكٹ اور سيدھا ہے.
اور حديث سے ثابت ہے كہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانے اور اس كے دونوں گواہوں اور اس كے لكھنے والے پر لعنت فرمائى اور فرمايا: وہ سب برابر ہيں. انتھى
ديكھيں: كتاب فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 401 .
اس كے علاوہ كئى ايك مشہور اور معلوم فتاوى جات ہيں جو سودى بنكوں ميں ملازمت اور كام كرنے كى حرمت بيان كرتے ہيں، چاہے كام كسى بھى نوعيت كا ہو.
لہذا اس بنا پر آپ كے خاوند پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ جو كچھ ہو چكا اس پر اللہ تعالى سے معافى مانگے اور توبہ و استغفار كرتے ہوئے اس كام كو چھوڑ دے، اور اسے اللہ تعالى پر توكل كرنا اور يقين كرنا چاہيے كہ روزى رساں صرف اللہ تعالى ہى ہے، اور بلاشبہ رزق اس كى جانب سے ہى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ نكال ديتا ہے، اور اسے رزق بھى ايسى جگہ سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل اوربھروسہ كرے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اپنے معاملے كو پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ) .
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اپنے حلال كے ساتھ اپنے حرام سے بے پرواہ كردے.
واللہ اعلم .