"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
رمضان المبارک کے روزے کس شخص پرفرض ہيں ؟
الحمد للہ.
جس شخص میں بھی پانچ شرطیں پائي جائيں اس پر روزے فرض ہیں :
پہلی :
وہ شخص مسلمان ہو ۔
دوسری :
مکلف ہو ۔
تیسری :
روزہ رکھنے پرقادر ہو ۔
چوتھی :
مقیم ہو ۔
پانچویں :
اس میں کوئي مانع نہ پایا جائے ۔
مندرجہ بالا پانچ شروط جب بھی کسی شخص میں پائي جائيں اس پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہوں گے ۔
پہلی شرط کی وجہ سے کافر روزہ رکھنے کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اس پر روزہ رکھنا لازم نہيں اورنہ ہی اس کا روزہ رکھنا صحیح ہے ، اوراگر وہ مسلمان ہوجائے تو اسے روزہ قضاء کرنے کا نہیں کہا جائے گا ۔
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ان کے نفقات کے قبول نہ ہونے کے اس کے علاوہ اورکوئي سبب نہیں کہ انہوں نے اللہ تعالی اوراس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اورنماز کے لیے بھی بڑی سستی اورکاہلی سے آتے ہیں اورخرچ بھی برے دل سے ہی کرتے ہیں التوبۃ ( 54)
جب ان کے کفر کی وجہ سے ان کے نفقات قبول نہیں توپھر خاص عبادات تو بدرجہ اولی قبول نہیں ہونگی ۔
اوراسلام میں داخل ہونے سے قبل والے روزوں کی قضاء ادا نہيں کریں گے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
آپ کافروں سے کہہ دیجیۓ کہ اگر وہ اپنے کفرسے باز آجائيں توان کے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جائيں گے ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جوشخص بھی مسلمان ہوا آپ نے ان کے کفر کی حالت میں رہ جانے والے واجبات کی ادائيگي کا کبھی حکم نہیں دیا ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
آیا کافرجب وہ مسلمان نہ ہوتواس کو روزے نہ رکھنے پر آخرت میں سزا دی جائے گی ؟
تواس کاجواب یہ ہے کہ :
جی ہاں اسے اس کے اوراسی باقی سب واجبات ترک کرنے پرسزا دی جائے گي ، کیونکہ جب مسلمان جو کہ اللہ تعالی کا مطیع اورشریعت اسلامیہ کے احکام پر التزام کرنے کا پاپند ہونے والاشخص اس کے ترک کرنے پر سزا کا مستحق ہے تو کافرجو کہ ایک متکبر ہے کو بدرجہ اولی سزا ملے گی ۔
اورپھردوسری بات یہ بھی ہے کہ جب کافر کو ان دنیاوی نعمتوں جن میں کھانا پینا اورلباس وغیرہ شامل ہے سے نفع اٹھانے کی بنا پر عذاب دیا جائے گا توحرام کام کے ارتکاب اورواجبات کو ترک کرنے پر بالاولی سزا دی جائےگی ، یہ توقیاس تھا اوراس کی دلیل بھی قرآن مجید میں موجود ہے :
اللہ تعالی نے مجرموں سے اصحاب یمین کا سوال کا ذکر کرتے ہوۓ فرمان:
تمہیں جہنم میں کس چيز نے لاڈالا ؟ انہوں نے کہا ہم نہ تو نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے ، اورہم بحث کرنے والے انکاریوں کے ساتھ مل کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے ، اورقیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے المدثر ( 42 - 46 ) ۔
توان چار چيزوں نے انہیں جہنم میں داخل کیا وہ یہ ہیں :
پہلی چيز نماز ہے ہم نماز نہيں پڑھتے تھے
دوسری زکاۃ ہے : ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے
تیسری : اللہ تعالی کی آیات سے استھزاء اورمذاق ہم بحث کرنے والے انکاریوں کے ساتھ مل کر بحث مباحثہ کرتے تھے
چوتھی : روزقیامت کی تکذیب : اورہم روزقیامت کو جھٹلاتے تھے ۔
دوسری شرط :
مکلف ہو ۔ مکلف وہ ہوتا ہے جو عاقل اوربالغ ہو ، کیونکہ بچہ اور مجنون مکلف نہیں ، تین اشیاء میں سے کسی ایک کے بھی پائے جانے پر بلوغت حاصل ہوجاتی ہے اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے آپ سوال نمبر ( 20475 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
اورعاقل وہ ہے جومجنون نہ ہو یعنی اس کی عقل صحیح ہو بے عقل نہ ہو ، اس لیے جوبھی بے عقل ہے وہ مکلف نہیں اوراس پر دین کے واحباب و فرائض نماز ، روزہ وغیرہ کوئي بھی چيز واجب نہيں ہے ۔
تیسری شرط :
اسے قادر ہونا چاہیے :
یعنی وہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو ، اوروہ شخص جوروزہ رکھنے سے عاجز ہے اس پر کوئي روزہ نہیں لیکن وہ اس کی قضاء کرے گا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ہاں جوبیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہۓ ۔
لیکن یہ عجز اورقدرت نہ رکھنا دوقسموں میں تقسیم ہوتا ہے :
دائمی اورمستقل عاجز ، اورغیرمستقل عاجز ۔
مندرجہ بالا آیت میں غیرمستقل عاجز کیا بیان ہے ، ( مثلا وہ مریض جس کے شفایاب ہونے کی امید ہو یا مسافر توان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ فوت شدہ روزے بعد میں رکھیں گے ) ۔
دائمی اورمستقل عاجز : ( مثلا وہ مریض جس کے شفا یابابی کی کوئي امید نہيں ، اور وہ بوڑھا جوروزے رکھنے سے عاجز ہو ) ان کا ذکر مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی میں ہے :
اورجواس کی طاقت رکھیں وہ ایک مسکین کا کھانا دنے دیں
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہيں :
جب کوئي بوڑھا مرد اورعورت روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھیں تو ہر دن کے بدلے میں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلائيں ۔
چوتھی شرط :
مقیم ہو ۔
اگر کوئي شخص مسافر ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہيں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجومریض یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ مسافر کے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اورمسافر کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ آسانی والا کام کرے اگر تو اس کے لیے روزہ رکھنے میں کوئي نقصان ہو تومسافر کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اوراپنے آپ کو قتل نہ کرو یقینا اللہ تعالی تمہارے ساتھ بڑا مہربان اوررحم کرنے والا ہے ۔
اس آیت میں دلیل ہے کہ انسان کو جس میں نقصان ہو وہ اس کے لیے منع ہے ، آپ اس کی مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 20165 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ :
اس ضررکاپیمانہ کیا ہے جس کی وجہ سے روزہ رکھنا حرام ہے ؟
تواس کا جواب یہ ہے کہ :
اس کا ضرر حسی یا پھر خبر کے ساتھ ہوتا ہے ، حسی ضرر یہ ہے کہ مریض یہ محسوس کرے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی بیماری میں اضافہ ہوگا اوراسے ضرور دے گا جس کی وجہ سے اس کی شفایابی میں دیر ہوگی ۔
یا پھر کوئي ماہر ڈاکٹر اسے بتائے کہ اس کے لیے روزہ رکھنا ضرر کا باعث ہوگا ۔
پانچویں شرط :
اس شخص میں کوئي مانع نہ پایا جائے ، اوریہ صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے ، اس لیے حائضہ اورنفاس والی عورت پر روزہ رکھنا لازم نہیں لیکن وہ بعد میں اس کی قضا کرے گی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض یا نفاس آتا ہے نہ تو وہ روزہ رکھتی ہے اور نہ ہی نماز پڑھتی ہے ) ۔
تواس لیے اس پر اس حالت میں روزہ رکھنا لازم نہيں اورعلماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر وہ رکھ بھی لے تو اس کا روزہ صحیح نہيں ہوگا ، بلکہ اس پر اس کی قضاء ضروری ہے ۔
واللہ اعلم .