"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں میرے شادی کے پانچ سال کے بعد دو بچے ہوئے، تو میرا خاوند مجھے نظر انداز کرنے لگا، میں نے دو بچوں کی خاطر صبر کیا کہ شاید میرا خاوند راہِ راست پر آ جائے، لیکن مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرا خاوند دوسری لڑکیوں میں دلچسپی رکھتا ہے، میں نے اپنی ملازمت سے چھٹی لے کر اس کے ساتھ سیر کرنے کا پروگرام بنایا اور اپنے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں بتلایا اور اس دوران میں نے اپنے خاوند کو منانے کی کوشش کی کہ وہ ایک اور شادی کر لے اور میرے ساتھ ایسے ہی پیش آئے جیسے اللہ کو پسند ہے، لیکن میرے خاوند نے میری پیشکش مسترد کر دی ، تو میں اپنے بچوں کی خاطر اس کے ساتھ ہی رہی۔ یہ بھی واضح رہے کہ وہ ایک اچھا والد ہے اور وہ مجھے زد و کوب نہیں کرتا، لیکن میں نے یہ ملاحظہ کیا ہے کہ وہ لڑکیوں پر بہت پیسہ خرچ کرتا ہے، تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کے علم میں لائے بغیر اس کے پیسے نکال لیا کروں تا کہ اس کے بچوں کے لیے کچھ جمع کر لوں؟
الحمد للہ.
اگر آپ کا خاوند آپ کے اور بچوں کے اخراجات پورے کر رہا ہے تو پھر آپ کو اس کے پیسوں میں سے کچھ لینے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کا مال اس کی خوشی سے ہی لینا چاہیے؛ اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ )
ترجمہ: اے ایمان والو ! اپنی دولت ناجائز طریقے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ خرید و فروخت تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو ۔[النساء:29]
اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہاری جانیں، مال و دولت، اور عزتیں ایسے ہی دوسروں پر حرام ہیں جیسے آج کا دن تمہارے اس مہینے میں اور اس شہر میں حرام ہے، یہ بات حاضرین غیر حاضر افراد تک پہنچا دیں) بخاری: (67) مسلم: (1679)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی کے لیے کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے) احمد: (20172) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "ارواء الغلیل" (1459) میں صحیح کہا ہے۔
لیکن اگر خاوند واجب نان و نفقہ کے متعلق کمی اور کوتاہی کرتا ہے تو پھر اس کے مال میں سے بقدر ضرورت لینا جائز ہے؛ اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ : ہند بنت عتبہ نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابو سفیان کنجوس آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، ہاں اگر میں اس کی لا علمی میں لے لوں تو خرچہ پورا ہوتا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو) بخاری: (5364)
اس لیے اگر وہ واجب نان و نفقہ کی ادائیگی میں کمی نہ کرتا ہو تو پھر خاوند کے مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔
اس لیے کوئی بھی ایسی چیز لینے سے بچیں جو آپ کے لیے حلال نہیں، بچوں کے لیے جمع پونجی اکٹھی کرنے کے نام پر بھی پیسے چھپانے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کو اس چیز کا اختیار نہیں ہے، اور نہ ہی باپ کی زندگی میں بچوں کا باپ کے مال پر کوئی حق ہے، ما سوائے واجب نان و نفقہ کے، ہاں اگر آپ کا خاوند آپ کو پیسے جمع کرنے کی اجازت دے دے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ۔
مثلاً آپ ان سے کہتی ہیں کہ: میں گھر کے خرچے میں سے بچنے والی رقم کو بچوں کے لیے جمع کر رہی ہوں اور خاوند اس کی اجازت دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو یہ معلق ہبہ کے زمرے میں شامل ہو جائے گا۔
نیز آپ اپنے خاوند کو تقوی الہی اور اللہ کو ہر وقت نگران سمجھنے کی تلقین کرتی رہیں، اور انہیں سمجھائیں کہ اپنی دولت کی حفاظت کریں۔
اسی طرح آپ اپنے خاوند کو خیر اور بھلائی کی دعوت دیتی رہیں اس کے لئے حکمت سے کام لیں، اور اپنے خاوند کو برائی سے روکیں۔
نیز آپ صبر بھی کریں اللہ سے ثواب کی امید بھی رکھیں، بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کریں، اور اگر خاوند کی جانب سے کوئی نامناسب رویہ سامنے آتا ہے تو اس پر صبر کریں؛ کیونکہ یہ گھر کے ٹوٹنے اور بچوں کے ضائع ہونے سے کہیں بہتر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یہ بات ذہن نشین کرلو! ناگوار معاملے پر صبر کرنے میں بہت بڑی خیر ہے، کامیابی اور فتح صبر کرنے سے ہی ملتی ہے، نیز آسانی تنگی کے بعد ہی آتی ہے اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے) احمد (2803) اور دیگر محدثین نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور اسے شیخ احمد شاکر اور مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
پہلے سوال نمبر: (154172) کے جواب میں حکمت بھرے اسلوب بیان ہو چکے ہیں آپ انہیں اپنے خاوند کو راہ راست پر لانے کے لیے استعمال کریں۔
ہم بھی دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے خاوند کو راہ راست پر لائے اور آپ کے معاملات سنوار دے۔
واللہ اعلم.