"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں حج کیلیے درخواست دینا چاہتا ہوں، لیکن سیاحتی کمپنیاں یا رفاہی ادارے، یا ملکی سطح پر حج قرعہ اندازی کرنے والا ادارہ حج پیکج کیلیے حتمی قیمتوں کا اعلان صرف اسی وقت کرتا ہے جب قرعہ اندازی کے نتائج سامنے آ جاتے ہیں، اس میں ہر امیدوار حاجی کیلیے 5 تا 30 ہزار مصری پاؤنڈ پیشگی جمع کروانے لازمی ہوتے ہیں کہ بقیہ رقم حتمی قیمت کے اعلان کے بعد جمع کروائی جائے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجھے حج کی استطاعت یا عدم استطاعت کا علم اسی وقت ہوگا جب حتمی قیمتوں کا اعلان کیا جائے گا، اب اگر حتمی قیمت میری استطاعت سے زیادہ ہوتی ہے اور میں حج درخواست واپس لینا چاہتا ہوں تو پھر متعلقہ کمپنی تقریباً 10 فیصد کٹوتی کے بعد مجھے رقم واپس کرتی ہے، تو ایسی صورت میں کہ جب حتمی قیمت نامعلوم ہے توکیا حج درخواست دینا جائز ہے؟ اور حج کیلیے میری استطاعت کا کیا حکم ہو گا؟
الحمد للہ.
اول:
یہ بہت اہم مسئلہ ہے اس کی وضاحت کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ اس مسئلے کا تعلق ایک مقدس فریضے کے ساتھ ہے اور بہت سے لوگ اپنا فریضۂ حج ادا کرنے کیلیے مجبوراً اس سے دوچار ہوتے ہیں۔
یہ یقینی بات ہے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ دھوکا دہی ہے کہ حج پیکج کی قیمت یا اجرت نامعلوم ہے، حالانکہ خرید و فروخت یا اجرت کی اساسی شرط یہ ہوتی ہے کہ قیمت یا اجرت معلوم ہو۔
نیز یہ بھی یقینی بات ہے کہ درخواست گزار اگر حج پر نہ جانا چاہے تو اس صورت میں 10 فیصد کٹوتی کرنا واضح دھوکا اور نقصان ہے۔
لہذا جمہور فقہائے کرام کی گفتگو سے عیاں یہی ہوتا ہے کہ یہ لین دین صحیح نہیں ہے، اس میں قیمت یا اجرت کے نامعلوم ہونے کی بنا پر یہ لین دین فاسد ہے۔
جبکہ بعض اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر قیمت فی الحال معلوم نہ ہو لیکن آخر کار قیمت معلوم ہو ہی جائے گی اور بعد میں قیمت معلوم ہونے پر خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان تنازعہ یا اختلاف بھی پیدا نہیں ہو گا تو پھر ایسا لین دین جائز ہے، ا س موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سامان تجارت پر قیمت لکھ کر [زبان سے بولے بغیر]خرید و فروخت کرنا جائز ہے، امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے، قاضی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ کوئی بھی ایسا انداز جس سے قیمت حتمی طور پر معلوم ہو جائے[اس انداز کے ساتھ خرید و فروخت جائز ہے] اور اسی طرح لوگوں میں رائج طریقے سے تجارت بھی جائز ہے ۔ امام احمد کے مذہب میں ایک موقف اس کے مطابق بھی ہے۔
اور اگر قیمت ذکر کئے بغیر چیز فروخت کر دی تو مثل قیمت کے عوض یہ تجارت جائز ہو گی، جیسے نکاح میں ہوتا ہے" انتہی
"الاختيارات ضمن الفتاوى الكبرى" (5/ 387)
اسی طرح ڈاکٹر یوسف شبیلی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اس موقف کے مطابق تجارتی معاہدے کی مجلس میں قیمت ذکر کرنا ضروری نہیں ہے، چنانچہ اتنا کافی ہے کہ طرفین قیمت کے تعین کیلیے طریقہ کار پر اتفاق کر لیں۔
یہ موقف امام احمد کے مذہب میں موجود ہے، اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔ نیز یہی موقف کچھ حنفی فقہائے کرام کا بھی ہے" انتہی
ماخوذ از تحقیقی مقالہ بعنوان: "البيع والإجارة بالسعر المتغير" صفحہ 7، یہ مقالہ اسلامی فقہ اکیڈمی کے 22 ویں اجلاس کے مقالہ جات میں شامل ہے۔
لہذا اگر قیمت فی الحال معلوم نہیں ہے، لیکن مستقبل میں معلوم ہو جائے گی اور معلوم ہونے پر کوئی تنازعہ بھی نہیں کھڑا ہو گا تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں ایسے لین دین میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ مسئلہ سائل کے ملک میں لوگوں کیلیے قابل عمل ہے، وگرنہ حتمی قیمت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے حج اور عمرے کیلیے روانگی معطل ہو کر رہ جائے گی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ حتمی قیمت میں متوقع تبدیلی کے لیے طریقہ کار واضح ہونا چاہیے، مثلاً: اگر یہ کہہ دیا جائے کہ حج یا عمرہ پیکج کی قیمت 10 ہزار ہو گی، لیکن اگر مقامی کرنسی ریٹ کم ہوتا ہے تو درخواست گزار یہ فرق ادا کرے گا۔
البتہ اس صورت میں صرف وہی حج کی درخواست دے جسے غالب گمان یہی ہو کہ اس کے پاس مالی استطاعت موجود ہے اور وہ حج پیکج کی قیمت ادا کر دے گا، تا کہ 10 فیصد کٹوتی سے بچ سکے۔
دوم:
استطاعت کے متعلق یہ ہے کہ حج پیکج کی قیمت اور اس میں متوقع اضافہ کے بارے میں تخمینہ لگایا جائے گا اگر دونوں کو ملا کر انسان ادائیگی کر سکتا ہو تو پھر وہ شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے ۔
اور اگر مجموعی رقم ادا نہیں کر سکتا تو وہ حج کی استطاعت نہیں رکھتا، چاہے موجودہ قیمت تو اس کے پاس موجود ہو لیکن متوقع اضافہ کی رقم موجود نہ ہو تو بھی اس میں حج کی استطاعت نہیں ہے، نہ ہی اسے ایسی صورت میں حج کیلیے درخواست دینی چاہیے مبادا اپنے مال میں سے دس فیصد کٹوتی نہ کروا بیٹھے۔
واللہ اعلم.