"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مصر میں نماز فجر کے وقت میں اختلاف ہے، کل میری والدہ کو اذان فجر کے وقت شدید پیاس لگی تو انہوں نے میرے بھائی سے پوچھا، اس پر میرے بھائی نے کہا کہ پانی پی لو، میرے بھائی نے یہ بات اس لیے کی کہ مصر میں ایک بڑے سلفی عالم ہیں وہ کہتے ہیں کہ مصر میں نماز فجر کا وقت صحیح نہیں ہے، اس لیے وہ خود بھی اور ان کے تلامذہ بھی اذان کے 10 منٹ بعد تک کھاتے پیتے رہتے ہیں، میرے بھائی نے ایسا کافی بار کیا ہے، لیکن اب انہیں معلوم نہیں کہ کتنے دن ایسے کیا تھا، اب میرے بھائی اور والدہ پر کیا لازم آتا ہے؟
الحمد للہ.
روزے کی حالت میں طلوع فجر سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رکے رہنا ضروری ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ )
ترجمہ: کھاؤ اور پیو ، یہاں تک کہ فجر کے وقت سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے۔ [البقرة:187]
تو اس آیت کے مطابق اصل معیار طلوع فجر ہے، لہذا اگر کسی کو طلوع فجر کا یقینی علم نہیں ہے تو وہ اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک اسے طلوع فجر کا یقین نہ ہو جائے۔
اسی طرح اگر یہ معلوم ہو کہ مؤذن وقت سے پہلے اذان دیتا ہے یا مؤذن کے بارے میں شک ہو کہ وہ وقت پر اذان دیتا ہے یا پہلے، تو اس کیلیے یقین حاصل ہونے تک کھانا پینا جائز ہے، تاہم یہ بہتر ہے کہ اذان سنتے ہی کھانے پینے سے رک جائے یہ محتاط عمل ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو اذان فجر سننے کے بعد بھی کھانے پینے میں لگا رہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر روزہ فرض ہو جیسے کہ رمضان کے روزے یا پھر نذر کا کفارہ ا ہو اور مؤمن کو یہ معلوم ہو جائے کہ طلوع فجر ہو گئی ہے تو وہ کھانے پینے اور دیگر روزے کے منافی امور سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)
ترجمہ: کھاؤ اور پیو ، یہاں تک کہ فجر کے وقت سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے، پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187]
لہذا جب اذان سنے اور اسے علم ہو کہ فجر کی اذان وقت پر دی جاتی ہے، تو کھانے پینے سے رک جانا واجب ہے۔
اور اگر مؤذن طلوع فجر سے پہلے اذان دے دیتا ہے تو اس کیلیے کھانے پینے سے رکنا واجب نہیں ہے، جب تک طلوع فجر نہ ہو کھانا پینا جائز ہے۔
اور اگر مؤذن کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ فجر کی اذان وقت پر دیتا ہے یا پہلے دیتا ہے تو پھر ایسی صورت میں بہتر اور محتاط یہی ہے کہ جب اذان سنے تو فوری کھانے پینے سے رک جائے، لیکن اگر اذان کے وقت وہ کھا پی لیتا ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ اسے طلوع فجر کا ابھی تک علم نہیں ہوا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ جو شخص بڑے شہروں میں رہتا ہے تو وہاں روشنیوں کی وجہ سے طلوع فجر کا احساس عین وقت پر نہیں ہوتا، لیکن ایسا شخص اپنے روزے کو محفوظ بنانے کیلیے اذان کا خیال کرے، اور اسی طرح منٹ اور گھنٹوں کے ساتھ طلوع فجر کا وقت بتلانے والے نظام الاوقات کو مد نظر رکھے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان پر عمل ہو گا جس میں ہے کہ: (جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جس چیز پر یقین ہو اسے اپنا لو) ایسے ہی ایک اور حدیث میں ہے کہ: (جو شخص شبہے والی چیزوں کو چھوڑ دے تو وہ اپنے دین اور عزت کو محفوظ بنا لیتا ہے) اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے۔" ختم شد
"فتاوی رمضان" جمع و ترتیب اشرف عبد المقصود صفحہ: (201)
اس بنا پر اگر آپ کے بھائی اور والدہ نے کسی ایسے عالم دین کی بات مانی ہے جو ان کے ہاں معتمد ہیں، اور ان کا کہنا یہ ہے کہ فجر کی اذان وقت سے دس منٹ پہلے دی جاتی ہے ، اور اسی بنا پر وہ اذان کے بعد بھی کھاتے پیتے ہیں تو اس ماضی میں جتنے بھی روزے رکھے ہیں ان پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور ان کے روزے صحیح ہیں۔
تاہم مستقبل میں ایسے کریں کہ اذان کے ساتھ ہی کھانا پینا چھوڑ دیں؛ کیونکہ نظام الاوقات میں غلطیوں کے بارے میں بہت زیادہ مباحثہ ہو چکا ہے، خصوصاً اس حوالے سے کہ ان کیلنڈروں میں غلطی کا امکان کتنا ہو تا ہے۔
اس لیے محتاط عمل یہی ہے کہ اذان کے ساتھ ہی کھانا پینا چھوڑ دیں، اور اذان کے بعد نماز کو 20 منٹ یا اس سے زیادہ وقفہ دیں۔
مزید استفادے کیلیے آپ سوال نمبر: (66202)
واللہ اعلم