"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں آئندہ رمضان میں اپنے گونگے بہرے بھائی کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میرے بھائی نے اشاروں کی زبان نہیں سیکھی ہوئی، وہ نہ ہی "لبیک عمرۃ" اپنی زبان سے کہہ سکتا ہے، تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں پہلے اپنی طرف سے عمرے کی نیت کروں اور پھر اپنے بھائی کی طرف سے کہوں: "لبيك عمرة عن أخي"؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ میں اپنے بھائی کی طرف سے دعائیں بھی کروں؟ واضح رہے کہ وہ طواف اور سعی خود سے کر سکتا ہے، اسی طرح نماز با جماعت بھی ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
الحمد للہ.
اول:
حج تمام بالغ اور عاقل مسلمانوں پر واجب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا
ترجمہ: اللہ کے لئے حج بیت اللہ ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی جانب سفر کی استطاعت رکھتے ہیں۔[آل عمران: 97]
گونگا اور بہرا شخص بھی اگر بالغ اور عاقل ہو تو وہ بھی دیگر مکلف افراد میں شامل ہے، اس پر بھی اسی طرح حج واجب ہے جیسے کہ دیگر افراد پر حج واجب ہے؛ کیونکہ حج بھی ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: اسلام یہ ہے کہ: تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اور محمد -صلی اللہ علیہ و سلم -اللہ کے رسول ہیں، تم نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر تمہارے پاس بیت اللہ کی جانب سفر کی استطاعت ہو تو حج بھی کرو اس حدیث کو امام مسلم: (8) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
جو شخص جن واجبات کی ادائیگی سے قاصر ہو تو وہ اسے معاف ہیں، تاہم جس قدر انہیں ادا کرنے کی استطاعت ہے اتنا عمل کرنا اس پر واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
ترجمہ: جتنی تم میں استطاعت ہے اتنا ہی احکام و نواہی پر عمل پیرا رہو۔ [التغابن: 16]
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حسب استطاعت اس پر عمل کرو متفق علیہ
اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حج یا عمرے میں داخل ہونے کا تلبیہ بلند آواز سے پڑھنا در حقیقت اس قلبی ارادے کا زبان سے اظہار ہے جو حج یا عمرے کے لئے دل میں پختہ ہو چکا ہے، زبان سے ادا کرنا نیت نہیں ہے۔
چنانچہ اگر یہ گونگا شخص صحیح انداز سے نیت کر سکتا ہے تو نیت کرے اور تلبیہ پڑھے، ویسے صرف دل میں ہی نیت کرنا کافی ہو گا۔
یہ بھی جائز ہے کہ اگر گونگا شخص زبان سے تلبیہ نہ کہہ سکتا ہو یا تلبیہ سیکھ نہ سکتا ہو تو گونگے شخص کا رفیق سفر بھی اس کی طرف سے تلبیہ کہہ سکتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "العدة في شرح العمدة" (1/608) میں کہتے ہیں:
"حنبل کی روایت میں ہے کہ: عجمی مرد اور عورت سمجھ نہ رکھتے ہوں تو انہیں ان کی صلاحیت کے مطابق سکھایا جائے گا، اور وہ حج عمرے کے مناسک ادا کریں ، حج اور عمرے کے ارکان ادا کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ حاضر ہوں گے، اللہ تعالی ان کی نیتوں کو زیادہ جانتا ہے، اور مجھے امید ہے کہ ان کے لئے اتنا ہی کافی ہو گا۔
اگر عجمی شخص عربی زبان میں تلبیہ کہنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، یا عربی زبان میں تلبیہ سیکھ سکتا ہو تو اس کے لئے کسی اور زبان میں تلبیہ کہنا جائز نہیں ؛ کیونکہ تلبیہ بذات خود ایک شرعی ذکر ہے، اس لیے یہ صرف عربی زبان میں ہی جائز ہے، بالکل ایسے ہی جس طرح اذان، تکبیر اور دیگر شرعی اذکار صرف عربی زبان میں ہی جائز ہیں، بلکہ تلبیہ تو اذان ،خطبے اور دیگر اذکار کی طرح وقت کے ساتھ مخصوص ذکر ہے[تو اس لیے تلبیہ صرف عربی زبان میں ہی کہا جائے گا]۔۔۔۔
اگر عربی زبان میں تلبیہ کہنے سے قاصر ہو تو ابو محمد یہ کہتے ہیں کہ: اسے اپنی زبان میں تلبیہ کہنے کی اجازت ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ : غیر عربی زبان میں تلبیہ کہنا جائز نہ ہو؛ کیونکہ نماز کے دوران غیر عربی زبان میں دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اگر تلبیہ کہنے سے اس لیے قاصر ہے کہ: اسے بالکل بھی تلبیہ پڑھنا ہی نہیں آتا، یا وہ گونگا ہے، یا اتنا بیمار ہے کہ بول نہیں سکتا، یا بالکل ہی چھوٹا بچہ ہے تو:
ابو طالب کی روایت کے مطابق امام احمد کہتے ہیں کہ: گونگے، مریض اور چھوٹے بچے کی جانب سے تلبیہ کہا جائے گا۔
تو اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ: اگر ان میں سے کوئی بھی با آواز بلند تلبیہ کہنے سے قاصر ہو تو ان کی طرف سے تلبیہ کہا جائے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ بچوں کی طرف سے تلبیہ کہا کرتے تھے، یہ اس لیے ہی کرتے تھے کہ بچے تلبیہ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں، تو بچوں کے حکم میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو تلبیہ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ویسے بھی اگر کوئی شخص حج کے تمام ارکان سے عاجز ہو تو حج کے معاملات میں نیابت اور نمائندگی جائز ہے، جیسے کہ رمی وغیرہ میں نمائندگی کرنا جائز ہے۔
تو اگر کوئی خود سے تلبیہ کہنے سے قاصر ہے تو کوئی اور اس کی طرف سے تلبیہ کہے گا، اور اس کا حکم ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی کسی فوت شدہ شخص کی طرف سے تلبیہ کہتا ہے، یا کسی ایسے شخص کی طرف سے تلبیہ کہتا ہے جس کی زبان کٹی ہوئی ہے، اگر زبان کٹا شخص خود سے تلبیہ کہے تو یہ اچھا ہے، وگرنہ وہ صرف نیت پر ہی اکتفا کرے تو یہ بھی جائز ہے۔
ہمارے فقہائے کرام جن میں قاضی اور ان کے بعد آنے والے فقہائے کرام شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ: تلبیہ کہنا سنت ہے، اس کے ترک کرنے پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حج میں شامل ایک ذکر ہے، تو اس کا حکم عرفات، مزدلفہ، اور منی وغیرہ میں کیے جانے والے دیگر اذکار والا ہو گا۔" ختم شد
"شرح العمدة" (4/431) طبع شدہ: دار عالم الفوائد
بچے، گونگے، اور دینی احکام سیکھنے سے قاصر افراد وغیرہ کی جانب سے حج کرنے کی بنیادی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم روحا مقام پر ایک قافلے سے ملے تو آپ نے پوچھا: (تم کون ہو؟) تو انہوں نے جواب میں کہا: "ہم مسلمان ہیں، اور آپ کون ہیں؟" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں اللہ کا رسول ہوں) یہ جواب سن کر ایک عورت نے اپنے بچے کو اٹھایا اور کہنے لگی: "کیا اس کا حج ہو جائے گا؟" تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جی ہاں، اور تمہیں اس کا اجر ملے گا۔)" مسلم: (1336)
احادیث مبارکہ میں ایسے دلائل موجود ہیں جن میں قاصر اور معذور افراد کی جانب سے نیابت کا جواز ملتا ہے۔
اور "عون المعبود"(5/110) میں ہے کہ:
"خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں: بچے کے لئے حج بطور ثواب ہو گا، بچے کی طرف سے فرض حج ادا نہیں ہو گا، چنانچہ اگر یہ بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو [استطاعت ہونے پر ] اسے اپنا فریضہ حج ادا کرنا ہوگا۔
یعنی حج کا معاملہ بھی نماز جیسا ہے کہ جب بچے میں نماز ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دیا جائے گا؛ چاہے ابھی اس پر نماز فرض نہ ہوئی ہو، تاہم اللہ کے فضل سے اس کا اجر ملے گا، نیز بچے کو نماز کا حکم دینے والے اور نماز کی رغبت دینے والے کے لئے بھی اجر ہو گا۔
چنانچہ جب بچے کو حج کروایا جائے گا تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عرفات، مزدلفہ اور منی میں جانا اور ٹھہرنا مسنون ہے، اگر اس میں چلنے کی استطاعت نہ ہو تو اسے اٹھا کر بیت اللہ کا طواف کروایا جائے گا۔ اسی طرح صفا مروہ کی سعی اور دیگر حج کے اعمال کا معاملہ ہے۔
یہی حکم ایسے مجنون شخص کا ہے جسے افاقے کی امید نہ ہو۔" ختم شد
واللہ اعلم