"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے بذریعہ انٹرنیٹ ایک کورس میں شرکت کی اور اس کی فیس بھی پیشگی ادا کی، جس وقت ہمیں کورس کے گروپ میں شامل کیا گیا تو ہم سے اللہ تعالی کے سامنے یہ عہد لیا گیا کہ ہم کورس کا مواد اور ڈاؤنلوڈ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو دیں گے، لیکچرز کو دیکھنے کے لیے ٹرینر کی جانب سے یہ بنیادی شرط تھی، تو میں نے لیکچر تک رسائی پانے کے لیے صرف اتنے لفظ کہے کہ : "میں اللہ کے سامنے عہد کرتی ہوں" اس سے زیادہ الفاظ نہیں کہے، کیونکہ میری نیت یہ تھی کہ میں لیکچر ڈاؤنلوڈ کر لوں گی؛ کیونکہ میں مصروف ہوں، اور اتنی دیر تک انٹرنیٹ آن کر کے دیکھ نہیں سکتی، نیز مجھے میری کچھ سہیلیوں نے بھی کہا کہ میں اس ٹریننگ میں شامل ہو جاؤں اور پھر انہیں بھی ٹریننگ کا مواد ڈاؤنلوڈ کر کے ارسال کر دوں، اس طرح ٹریننگ کی فیس ہم سب آپس میں تقسیم کر لیں گی اور کسی پر زیادہ بوجھ بھی نہیں بنے گا، اور سب کا فائدہ ہوجائے؛ کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اکیلا اس ٹریننگ کی فیس ادا نہیں کر سکتا، تو کیا اس طرح کی شرائط لگانا جائز ہے؟
الحمد للہ.
اول:
اگر ٹرینر (Trainer) کی جانب سے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ کوئی بھی ٹریننگ کا مواد ڈاؤنلوڈ کر کے کسی دوسرے کو نہیں دے گا، اور آپ نے اس شرط کو قبول کیا تو اس شرط کو پورا کرنا لازمی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مسلمان اپنی شرائط پر قائم رہتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری : (4/451) نے معلق نقل کیا ہے، جبکہ امام بیہقی: (7/249) اور حاکم: (2/57) نے اسے موصولاً بیان کیا ہے، نیز البانیؒ نے اسے "الإرواء" (5/207) میں صحیح کہا ہے۔
نیز امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:
"ابن عون رحمہ اللہ ابن سیرین رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ: اگر کوئی آدمی کرایہ پر سواری مہیا کرنے والے سے کہے: میں تمہارے قافلے کے ساتھ جاؤں گا، اور اگر فلاں دن میں نہ گیا تو تمہیں سو درہم دوں گا۔ لیکن وہ اس دن نہ جا سکا۔ تو قاضی شریح کہتے ہیں کہ: جو شخص بھی اپنی مکمل رضا مندی سے اپنے آپ پر کسی بھی چیز کو لازم کر لیتا ہے تو اس پر اس چیز کو لازم کرنا لازمی ہے۔
اسی طرح ایوب رحمہ اللہ ابن سیرین سے بیان کرتے ہیں کہ: اگر ایک آدمی اناج فروخت کرے اور کہے: اگر میں بدھ والے دن تم سے یہ اناج نہ لوں تو میرا اور تمہارا کوئی سودا ہوا ہی نہیں ہے۔ لیکن وہ بدھ کو نہ آ سکا، تو کیا حکم ہے؟ تو قاضی شریح خریدار سے کہا: تم نے ہی وعدہ خلافی کی تھی۔ اس لیے اسی کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔" ختم شد
صحیح بخاری: (3/198)
دوم:
قابل تسلیم شرط وہ ہوتی ہے جو عقد کے ساتھ ہو، یا اس سے کچھ پہلے ہو، لیکن عقد ہو جانے کے بعد جو بھی شرط لگائی جائے گی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا؛ کیونکہ عقد میں شرط نہیں تھی، البتہ اگر خیار مجلس یا خیار شرط کی مدت کے دوران کوئی شرط لگائی گئی ہو تو وہ بھی قابل تسلیم ہو گی۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیع میں لگائی جانے والی شرائط معتبر ہوتی ہیں چاہے وہ عقد کے ساتھ ہوں یا مدت خیار کے دوران بیع کے بعد ہوں، یا پہلے سے ہی وہ شرائط متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہوں۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (8/ 224)
اس بنا پر؛ اگر اس ٹریننگ میں داخلہ لیتے وقت آپ کے سامنے یہ شرط نہیں رکھی گئی، تو اس شرط پر عمل کرنا لازم نہیں ہے؛ کیونکہ یہ شرط عقد کے بعد لگائی گئی ہے۔
ٹرینر (Trainer) کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ٹریننگ حاصل کرنے والوں کو فیس ادا کرنے کے بعد لیکچر دیکھنے سے منع کرے، سوال میں مذکور عہد لینے کے بعد بھی ٹرینر (Trainer) ان سے لیکچر مخفی نہیں رکھ سکتا؛ کیونکہ اب ان کے سامنے لیکچر رکھنا واجب ہو چکا ہے، چنانچہ لیکچرز مخفی رکھنا ان پر ظلم ہو گا، چنانچہ سوال میں مذکور کوئی بھی ایسی چیز ان پر لازم نہیں ہے؛ اگر ٹرینر (Trainer) چاہتا ہے کہ یہ شرط لازم ہے تو پھر یہ ٹریننگ میں داخلے کے وقت واضح کرے بعد میں نہیں !
اس لیے آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ آپ ورکشاپ کا مواد ڈاؤنلوڈ کر کے اس سے استفادہ کریں؛ کیونکہ یہ شرط ٹریننگ میں داخلے کے وقت نہیں لگائی گئی تھی۔
سوم:
رہا یہ معاملہ کہ ورکشاپ کے مواد کو ڈاؤنلوڈ کر کے کسی دوسرے کو مفت میں مہیا کرنا تو ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ عمل جائز ہے، بشرطیکہ کے ایک آدھ فرد کو دیا جائے، لوگوں میں عام نہ کیا جائے کہ اس سے حقوق نشر و اشاعت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
بالکل اسی طرح یہ بھی ہے کہ: اگر کسی شخص کے پاس یہ ٹریننگ لینے کے لیے پیسے نہیں ہیں، تو کسی کے ساتھ مل کر ٹریننگ کی فیس ادا کرنا بھی جائز ہے، اس طرح ٹریننگ لینے والا شخص دیگر کی طرف سے نمائندگی کرے گا، تو ہمیں امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا فیس ادا کرنے میں شریک سب افراد اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی دوسرے کو مفت میں بھی دے سکتے ہیں، بلکہ کسی کو مفت میں دینا تو بالاولی جائز ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا یہ جائز ہے کہ ہم ایسی کیسٹ کی مزید کاپیاں تیار کریں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ حقوق نشر و اشاعت محفوظ ہیں؟ نیز یہ بھی کہ اگر مزید کاپیاں تیار کرنے کا مقصد دعوتی مقاصد کے لیے تقسیم کرنا ہو یا تجارت کے لیے کاپیاں تیار کی جائیں تو کیا شرعی حکم میں کوئی فرق آئے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ذاتی استعمال کے لیے کاپی بناتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جبکہ تجارتی پیمانے پر کاپیاں تیار کر کے فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مسلمان بھائی کی حق تلفی ہوتی ہے۔
تاہم ایک طالب علم دوسرے سے کاپی کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"التعليق على الكافي" لابن قدامة (3/ 373)، معمولی تصرف کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
واللہ اعلم