"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے محمد علیش رحمہ اللہ کی عبارت "منح الجلیل" میں پڑھی ہے کہ: " ولا تشترط غلبة الظن في حق مستنكح الشك لعجزه عنها، ويكفيه الشك فيه" کیا آپ مجھے اس عبارت کا مفہوم بتلا سکتے ہیں؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ اس پر کس حد تک عمل صحیح ہے؟
الحمد للہ.
الشیخ محمد علیش رحمہ اللہ کی مکمل عبارت یہ ہے:
" واجبه (دلك): أي إمرار عضو أو غيره على المغسول ... ويكفي فيه: غلبة الظن، على الصواب؛ فإنها كافية في الإيصال الواجب بالإجماع، ولا تشترط غلبة الظن في حق مستنكح الشك، لعجزه عنها، فيكفيه الشك فيه، ويجب عليه اللهو عنه، ولا دواء له إلا هذا"
یعنی غسل کے واجبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غسل والے عضو پر ہاتھ یا کوئی اور چیز جسم پر ملیں ۔۔۔ صحیح ترین موقف کے مطابق یہاں اس حد تک ملنا کافی ہو گا کہ غالب گمان ہونے لگے کہ پانی پورے عضو تک پہنچ گیا ہے، لیکن بہت زیادہ شک کرنے والے کے بارے میں غالب گمان ہونے کی شرط نہیں ہے؛ کیونکہ شکوک میں مبتلا شخص کے لیے غالب گمان کے درجے تک پہنچنا مشکل ہے، اس مریض شخص کا شک کرنا ہی کافی ہے، اس مریض کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شک پر توجہ بھی نہ دے؛ کیونکہ شک کی بیماری کا یہی علاج ہے کہ اس پر توجہ نہ دی جائے۔ ختم شد
"منح الجليل" (1 / 127)
عربی عبارت میں موجود لفظ " مستنكح " فقہائے کرام کے ہاں اس قسم کے مسائل میں کسی چیز کی بہتات اور کثرت پر بولا جاتا ہے، لہذا { فاستنكحه الشك } اس وقت بولتے ہیں جب شکوک بہت زیادہ ہو جائیں، شک انسان کی عادت بن جائے اور شکوک انسان پر غلبہ پا لیں، یہ انداز بیان مالکی فقہائے کرام کے ہاں مشہور ہے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (4 / 128) میں ہے کہ:
"معجم تاج العروس اور اسا س البلاغہ میں ہے کہ: { استنكح النوم عليه} یہ جملہ مجازی طور پر کسی نیند کے غالب آ جانے پر بولا جاتا ہے۔ نیز کسی بھی چیز کے غالب آ جانے کے بارے میں یہ تعبیر صرف مالکی فقہائے کرام ہی استعمال کرتے ہیں، اس تعبیر میں ان کے سامنے اس لفظ کے لغوی معنی ہوتے ہیں، چنانچہ وہ: { استنكحه الشك } اس وقت کہتے ہیں جب کسی کو بہت زیادہ شکوک و شبہات نے گھیر لیا ہو۔
جبکہ دیگر فقہائے کرام { غلبه الشك} یا { كثر الشك}کی تعبیر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی بہت زیادہ اتنا شک کرنے لگے کہ شک کرنا اس کی عادت بن جائے۔" ختم شد
شک کی بہتات اور انسان پر غالب آ جانے کا مطلب یہ ہے کہ روزانہ اس بیماری کا سامنا کرنا پڑے، کوئی دن بھی اس کے بغیر نہ گزرے۔
چنانچہ علامہ حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (1 / 466) میں کہتے ہیں:
"فقہائے کرام کی اصطلاح میں " مستنكح" اس شخص کو کہتے ہیں جسے ہر وضو، یا نماز میں شک ہو، یا ایک دن میں ایک دو بار شک ضرور محسوس ہو، لیکن اگر کسی کو ایک دو دن یا تین دن کے بعد جا کر شک ہوتا ہے تو وہ شخص " مستنكح"نہیں ہے۔" ختم شد
تو خلاصہ یہ ہوا کہ: اول الذکر کتاب "منح الجلیل" کی عبارت کا مفہوم یہ ہوا کہ: غسل کرنے والے کو غالب گمان ہونے لگے کہ اس نے اپنے عضو پر اچھی طرح ہاتھ مل لیا ہے، تو وضو کا پانی اعضا تک پہنچانے کے لیے یہی کافی ہے۔ یہ حکم اس شخص کے بارے میں جس پر شکوک و شبہات کا غلبہ نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے تو غالب گمان کی بجائے صرف خالی گمان ہونا ہی کافی ہے، غالب گمان چاہے نہ بھی ہو۔
کیونکہ ایسے شخص کے لیے شکوک و شبہات ؛غالب گمان کے حصول میں مانع ہیں اس لیے کہ غالب گمان کے حصول میں اسے شدید مشقت اٹھانی پڑے گی، جبکہ شریعت آسانی اور عدم حرج پر مبنی ہے۔
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی کا ارادہ رکھتا ہے، وہ تمہارے بارے میں تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ [البقرہ: 185]
ایسے ہی فرمایا:
مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں کسی حرج میں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ [المائدہ: 6]
نیز یہ بھی ہے کہ کثرت شک کا علاج عدم توجہ ہے؛ کیونکہ وسوسوں میں مبتلا شخص اگر شکوک و شبہات پر توجہ دے گا تو وسوسے مزید زیادہ ہوتے جائیں گے۔
چنانچہ علامہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الصغير" (1/170) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہے اسے دوران وضو کسی عضو کے دھونے میں شک ہو کہ آیا پانی عضو تک پہنچا ہے یا نہیں تو اس عضو کو دھونا اور ملنا لازم ہو گا۔ جبکہ شکوک و شبہات میں ملوث شخص پر شک کی حالت میں لازم یہ ہے کہ وہ شک کی طرف بالکل بھی دھیان نہ دے؛ کیونکہ شکوک کے پیچھے چلنے سے انسان دین پر سرے سے چل ہی نہیں سکے گا ، اللہ تعالی ہم سب کو وسوسوں سے محفوظ رکھے۔" ختم شد
اسی طرح علامہ صاوی رحمہ اللہ اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں:
"پہلے تو یہ معلوم ہو کہ پورے اعضا کو یقینی طور پر دھونا لازمی ہے، اور یقین کے لیے غلبہ ظن ہونا کافی ہو گا، غیر مستنکح (شکوک و شبہات سے دور شخص) کے بارے میں یہی معتمد موقف ہے۔
لہذا جب تک یقین اور غالب گمان نہ ہو جائے اس وقت تک یہ عمل ضروری ہو گیا۔"
علامہ عدویؒ شکوک و شبہات میں گھرے ہوئے شخص پر لازم ہونے والی ذمہ داری کے بارے میں کہتے ہیں:
"جس عضو کے بارے میں اسے شک ہو تو وہاں گمان یا غالب گمان کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی وہ شخص اپنا عضو دوبارہ دھوئے گا۔" ختم شد
"كفاية الطالب الرباني" (1/216)
اسی طرح حاشیہ دسوقی میں ہے کہ:
"شک کی بیماری میں مبتلا شخص مشکوک چیز کی طرف وجوباً توجہ نہیں کرے گا؛ ایسے شخص کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ظن غالب حاصل ہو؛ بلکہ یہ شخص تو تردد اور شک کی حالت پر ہی اکتفا کرے گا۔ یہی ہمارے شیخ کا موقف ہے۔" ختم شد
"حاشية الدسوقي على الشرح الكبير" (1/135)
جبکہ دوسرا موقف یہ بھی ہے کہ شک کی بیماری میں مبتلا شخص دل میں آنے والے پہلے خیال کو بنیاد بنائے گا اور بعد میں آنے والے خیال پر توجہ نہیں دے گا۔
جیسے کہ "التوضيح، شرح مختصر ابن الحاجب" (1/163) میں ہے کہ:
"مستنکح یعنی شک میں مبتلا شخص کے ہاں سب سے پہلا خیال جب ذہن میں آئے گا وہی معتبر ہو گا سب کا اسی پر اتفاق ہے۔
پہلے خیال کو معتبر کہنے کا موقف بعض قرویین اہل علم کا ہے، اور ان کے اسی موقف کی تائید بعض متاخرین نے بھی کی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ : جس وقت پہلا خیال ذہن میں آیا تو یہ وہ سلیم الذہن، لیکن بعد میں آنے والا خیال غیر عاقل کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے آیا۔
ابن عبد السلام کہتے ہیں: مدونہ وغیرہ کی تحریروں کے مطابق دونوں خیالات ہی کالعدم ہوں گے، اس کے خیالات کو بالکل بھی نہیں دیکھا جائے گا، یہی وہ موقف ہے جسے بہت سے ہمارے ساتھ ملنے والے اہل علم نے راجح بھی قرار دیا اور اسی موقف کا اپنایا بھی ہے، یہاں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بعض مشرق عربی کے اہل علم سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے یہ بتلایا کہ شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کے پہلے اور دوسرے خیال میں کسی قسم کی تفریق کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے، اور زمینی حقائق اسی کی تصدیق کرتے ہیں۔" ختم شد
تفصیلات کے لیے "التاج والإكليل" (1/301) اور اسی طرح (2/19) کا مطالعہ فرمائیں۔
اللہ اعلم