"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرے والد کو علم نہیں تھا کہ ہم پر فطرانہ واجب ہے، میری عمر جب 25 سال ہوئی تو میں نے خود ہی اپنا فطرانہ ادا کرنا شروع کر دیا، تو اس طرح مجھ پر گزشتہ 25 سال کا فطرانہ یک بار ادا کرنا ضروری ہو چکا ہے، تو کیا میں یہ 25 مختلف مساکین کو دوں؟ یعنی ہر سال کا فطرانہ ایک الگ شخص کو دوں؟ یا پھر میں 25 سے کم افراد کو بھی دے سکتا ہوں؟ نیز میں ان سابقہ سالوں کے فطرانے کی مقدار کیسے معلوم کروں گا؟
الحمد للہ.
اول:
والد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی طرف سے بھی فطرانہ ادا کرے اور اپنی زیر کفالت بیوی بچوں کا بھی فطرانہ ادا کرے، اور اگر بچوں میں سے کوئی ایسا بھی ہو کہ اس کے پاس اپنی دولت ہے تو اس کا فطرہ اسی کے مال سے ادا ہو گا۔
اور اگر آپ کے والد کو فطرانہ واجب ہونے کا علم ہی نہیں تھا، تو ہمیں امید ہے کہ انہیں لا علمی کی وجہ سے گناہ نہیں ہو گا، البتہ سابقہ تمام سالوں کی زکاۃ اپنی طرف سے اور اپنے زیر کفالت افراد کی طرف سے ادا کرنا پھر بھی لازم ہو گا۔
چنانچہ "مواهب الجليل" (2/ 376) میں ہے کہ:
"مدوّنہ میں ہے کہ: اگر صاحب استطاعت نے فطرانہ ادا کرنے میں سستی کی تو گزشتہ سب سالوں کی قضا اس پر لازمی ہو گی۔" ختم شد
اسی طرح "مختصر الوقار" میں ہے کہ:
"اگر کسی نے فطرہ ادا کرتے ہوئے سالہا سال تاخیر کر دی حالانکہ اس کے پاس استطاعت بھی تھی، تو وہ سابقہ تمام سالوں کے فطرانے کی قضا دے گا، گزشتہ ہر سال کا اپنا فطرانہ بھی ادا کرے گا اور اپنی زیر کفالت ایسے تمام لوگوں کا بھی جن پر فطرانہ فرض تھا، اس کی مقدار بھی اتنی ہی نکالے گا جتنی فرض تھی۔ اس شخص کے صحت مند ہونے کی صورت میں فطرانے کی مد میں اس کا سارے کا سارا مال بھی ختم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر مریض ہو یا فطرانے کی ادائیگی کی وصیت کر کے فوت ہو چکا ہو تو پھر اس کے کل مال کے ایک تہائی حصے سے فطرانہ ادا کیا جائے گا۔" ختم شد
تاہم اگر آپ خود ہی ان سالوں کا فطرانہ بھی اپنی طرف سے خود ہی ادا کریں جن میں آپ کے اخراجات والد کے ذمے تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، آپ انہیں بتلا بھی دیں کہ میں نے اپنا فطرانہ ادا کر دیا ہے۔ اگر آپ خود نہیں نکالتے تو اصولی طور پر مذکورہ سالوں کے فطرانے کی ادائیگی آپ کے والد کے ہی ذمے ہے۔
دوم:
ان تمام سالوں کا فطرانہ کسی ایک شخص کو یا متعدد افراد کو دینا جائز ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ 25 افراد کو ہی دیں؛ کیونکہ فطرانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فطرانہ مسکین کو دے دیا جائے، تو جب تک کسی شخص کو مسکین کہا جا سکتا ہے اس وقت تک اس مسکین کو فطرانہ دے سکتے ہیں چاہے ایک ہی شخص کا فطرانہ دیں یا کئی افراد کا، جب تک وہ مسکین ہے فطرانہ وصول کر سکتا ہے۔
جیسے کہ "المغنی" (3/ 99) میں ہے کہ:
"ایک شخص کو پوری جماعت کا فطرانہ اور پوری جماعت کو ایک شخص کا فطرانہ دیا جا سکتا ہے۔
ایک شخص کا فطرانہ پوری جماعت کو دینے کے بارے میں تو ہمیں کسی کی دوسری رائے کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے اپنا فطرانہ مستحق لوگوں تک پہنچا کر اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے کہ وہ کسی ایک مستحق کو فطرانہ دے دیتا۔
جبکہ ایک شخص کو پوری ایک جماعت کا فطرانہ دینے کے بارے میں امام شافعی اور ان کے ہم موقف افراد کہتے ہیں کہ فطرانہ چھ مدوں اور مصارف میں تقسیم کرنا ضروری ہے، پھر ہر مد میں سے تین افراد کو دینا ضروری ہے، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے بیان کر چکے ہیں۔
ہم اس کے خلاف دلائل بھی ذکر کر آئے ہیں، نیز یہ بھی کہ فطرانہ ایک صدقہ ہے کہ اس میں فطرانہ وصول کرنے والے افراد متعین نہیں ہوتے بالکل ایسے ہی جیسے نفلی صدقے میں وصول کرنے والوں کی تعیین نہیں ہوتی۔ یہی موقف مالک، ابو ثور، ابن المنذر اور اصحاب الرائے کا ہے۔" ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فطرانہ ہر شخص کی طرف سے ایک صاع کی مقدار میں ہوتا ہے، تاہم فطرانے میں یہ متعین نہیں کیا گیا کہ کس کو دینا ہے؟ اس لیے فطرانہ ایک سے زائد افراد میں تقسیم ہو سکتا ہے، اور اسی طرح متعدد لوگوں کا فطرانہ ایک ہی مسکین کو بھی دیا جا سکتا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (15/ 161)
سوم:
فطرانہ گندم یا چاول وغیرہ جیسے اناج کی شکل میں دیا جاتا ہے، چنانچہ ایک صاع کا وزن ان اشیا کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہو سکتا ہے، چنانچہ اگر آپ آٹا دیتے ہیں تو صاع دو کلو آٹے سے بھر جاتا ہے، اس طرح آپ 50 کلو آٹا فطرانے میں دیں گے۔
اور اگر آپ چاول دیتے ہیں تو تقریباً 3 کلو سے صاع بھرے گا، اس طرح آپ 75 کلو چاول فطرانے میں دیں گے۔
واللہ اعلم