"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
حلق تک پانی پہنچنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، البتہ اگر غیر ارادی طور پر پانی حلق تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا، مثلاً: کلی کر رہا تھا، یا ناک میں پانی چڑھا رہا تھا تو پانی حلق تک پہنچ گیا، ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہو گا، چاہے اس نے کلی اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ بھی کیا ہو۔
جیسے کہ "شرح منتهى الإرادات" (1/ 483) میں ہے کہ:
" کلی کرے یا ناک میں پانی چڑھائے، اور غیر ارادی طور پر پانی حلق تک پہنچ جائے، یا کلی کے بعد منہ میں باقی بچ جانے والے پانی کے قطروں کو نگل لے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہو گا، چاہے اس نے کلی یا ناک میں پانی چڑھاتے ہوئے مبالغہ کیا ہو یا تین بار سے زیادہ یہ عمل دہرایا ہو، یا پھر کسی نجاست یا قابل صفائی چیز وغیرہ کے لگنے کی وجہ سے یہ عمل زیادہ بار دہرایا ہو، تو تب بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا؛ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس وقت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روزے دار کے بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم مجھے بتلاؤ کہ اگر تم کسی برتن سے کلی کرو اور تمہارا روزہ ہو تو؟) عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس میں بھی کوئی حرج نہیں!!)
نیز یہ بھی ہے کہ غیر ارادی طور پر حلق تک پہنچنے کی وجہ سے یہ پانی گرد و غبار کا حکم بھی رکھتا ہے۔
امام [احمد] نے بلا مقصد، یا پانی ضائع کرنے کے لیےکلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا، یا گرمی یا پیاس لگنے کی وجہ سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا صریح لفظوں میں مکروہ قرار دیا ہے، آپ [امام احمد]کا مزید کہنا ہے کہ سینے پر پانی ڈال لے یہ میرے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل ہے، یہ ایسے ہی ہو گا کہ روزے دار پانی میں ڈبکی لگا دے، چنانچہ اگر وہ شرعی غسل یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے نہیں لگا رہا تو یہ مکروہ ہو گا، جب کہ دیگر دونوں فقہائے کرام کے ہاں مکروہ نہیں ہے، اس لیے مسنون یہ ہے کہ انسان طلوع فجر صادق سے پہلے ہی غسل کر لے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص پانی میں غوطہ لگائے اور پانی حلق تک پہنچ جائے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہو گا، کیونکہ اس کا پانی حلق تک پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا۔" ختم شد
حلق کا کوا، یا حلق کے قریب لٹکا ہوا گوشت حلق کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ حلق کے سامنے ہے۔
جیسے کہ عربی زبان کی لغت "المصباح المنير" (2/ 559) میں ہے کہ: عربی زبان مین "اَللَّهَاةُ" ایسے گوشت کے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو منہ کے آخری حصے میں حلق کے سامنے لٹکا ہوا ہوتا ہے، اس کی جمع: " لَهًى " آتی ہے، جیسے کہ عربی کے دیگر الفاظ: " حَصَاة " کی جمع: "حَصًى اور حَصَيَات "آتی ہے۔ اسی طرح "اَللَّهَاةُ" کی جمع: "لَهَوَاتٌ" اس کے حروف اصلیہ کی بنا پر ہے۔"
بعض فقہائے کرام نے ظاہر ہونے والے منہ کی حد بندی بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ منہ کے جس حصے سے [علم تجوید کے مطابق ]حرف "خ "اور "ح "ادا ہوتا ہے، ظاہری منہ ہے۔
جبکہ باطنی منہ کی حد بندی یہ بیان کی ہے کہ جہاں سے ہمزہ اور "ھ" ادا ہوتے ہیں۔
حالانکہ دونوں حصے ہی اہل لغت کے ہاں حروف حلقیہ میں شامل ہیں۔
جیسے کہ "نهاية المحتاج" (3/ 165) میں ہے کہ:
"منہ کے ظاہری حصے کی حد حرف "خ" کا مقام ہے، جبکہ مصنف [یعنی امام نووی اس میں ] حرف "ح" کے مخرج کو بھی شامل کرتے ہیں، اور باطنی منہ کی حد میں ہمزہ اور "ھ" کا مخرج شامل ہیں، ۔۔۔ نیز فقہائے کرام کے ہاں حلق کا معنی عربی زبان کے ماہرین کے مفہوم سے قدرے خاص ہے؛ کیونکہ اہل لغت کے ہاں "ح" اور "خ" دونوں ہی حروف حلقیہ میں شمار ہوتے ہیں، اگرچہ "خ" کا مخرج "ح" کی بہ نسبت ہونٹوں کی طرف زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناک اور منہ کے اندرونی حصے سے لے کر گردن میں گلے کے سامنے نظر آنے والی ابھری ہوئی ہڈی تک ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ دیکھیں: "المجموع" (6/ 319) وہاں پر انہوں نے غزالی اور رافعی رحمہما اللہ کی مخالفت کرتے ہوئے حرف "ح" کے مخرج کو ظاہری منہ میں شامل قرار دیا ہے۔
چنانچہ حلق کا کوا ظاہری منہ میں شمار ہوتا ہے، اور یہ تمام کے تمام حروف حلقیہ کے مخرج سے پہلے ہے، لہذا حرف "ح" کے مخرج کو ظاہری منہ میں شمار کیا جائے یا باطنی منہ میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوم:
غرغرہ کرنے کی اجازت صرف ضرورت کے وقت ہی دی جاتی ہے، اور اس میں یہ شرط بھی ہے کہ کوئی بھی چیز نہ نگلے، وگرنہ غرغرہ کرنے سے چیز حلق اور منہ کے اندر چلی جاتی ہے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غرغرہ مکروہ ہے، صرف ضرورت کی بنا پر کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: (وضو کرتے ہوئے ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر، الّا کہ تم روزے کی حالت میں ہو۔) لہذا اگر کبھی غرغرہ کرنے کی ضرورت ہو اور روزہ افطار کرنے تک تاخیر ممکن نہ ہو تو پھر غرغرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس چیز کا خاص طور پر لازمی خیال رکھے کہ کوئی بھی چیز حلق سے نیچے پیٹ کی طرف نے اترے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى" (19/ 255)
شیخ بن عثیمین رحمہ اللہ نے ہی روزے دار کے لیے غرغرے کے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں مزید یہ بھی کہا ہے کہ:
"اگر کوئی چیز نہ نگلے تو روزہ باطل نہیں ہو گا، تاہم غرغرہ کرنے سے گریز ہی کریں، الّا کہ اس کی ضرورت بہت زیادہ ہو، چنانچہ اگر غرغرہ کرتے ہوئے کوئی چیز پیٹ تک نہیں اترتی تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہو گا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" (19/290)
واللہ اعلم