"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
علماء کرام عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث کے بارہ میں کیا کہتے ہیں جس میں یہ آيا ہے کہ : وہ عمرہ کے لیے تنعیم گئيں ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث جس میں ہے کہ : حتی کہ اہل مکہ مکہ سے ہی احرام باندھیں گے جوحج یا عمرہ کرنا چاہے ،
توہم ان دونوں احادیث کے مابین جمع کس طرح کریں گے ؟ آپ اس کےبارہ میں کتاب وسنت کے موافق رائے بیان کریں ، اوراہل مکہ عمرہ کے لیے احرام کہاں سے باندھیں گے ، تنعیم سے یا مکہ سے ؟
الحمد للہ.
الحمدللہ
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم دونوں حدیثوں کے الفاظ ذکر کردیں اورپھران میں جمع کی وجوھات بیان کریں :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہماسے حدیث مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اوراہل شام کے لیے جحفہ ، اوراہل نجدکےلیے قرن منازل ، اوراہل یمن کے لیے یلملم میقات مقرر کیا اورفرمایا :
( یہ اہل میقات کے لیے اوران کے علاوہ جوحج اورعمرہ کرنے کے لیے یہاں سے گزریں ان کے لیے بھی میقات ہیں اورجوان کے اندرہیں اس کے احرام باندھنے کی جگہ اس کا گھر ہے اوراسی طرح اہل مکہ مکہ سے ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔
اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( وادی ) محصب ( ایک جگہ کانام ہے ) میں ٹھرے اورعبدالرحمن بن ابی بکر رضي اللہ تعالی عنہما کوبلایا اورفرمانے لگے :
( اپنی بہن کوحرم سے باہر لے جاؤ ( اورایک روایت میں ہے کہ تنعیم لے جاؤ ) تا کہ وہ عمرے کا احرام باندھ لے اورپھربیت اللہ کا طواف کرے ،اورمیں تم دونوں کا یہاں انتظار کررہا ہوں ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں : لھذا ہم نکلے اورمیں نے احرام باندھا اورپھربیت اللہ کا طواف کیا اورصفامروہ کی سعی کی اوررات کے وقت ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تووہ اپنی جگہ پر ہی تھے اوروہ فرمانے لگے :
کیا تم فارغ ہوگئي ہو؟ تومیں نے عرض کی جی ہاں ، تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین کوچ کرنے کا اعلان کردیا ، اورآپ نکلے اورنماز فجر سے قبل بیت اللہ کا طواف کیا اورپھر مدینہ روانہ ہوگئے ) صحیح بخاری اورمسلم ۔
تواس بنا پرکہا جاسکتا ہے کہ : ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث عام ہے کہ اہل مکہ صرف حج یا صرف عمرہ یا حج اورعمرہ دونوں کا اکٹھا احرام مکہ سے ہی باندھيں گے ، اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث جس میں ہے کہ وہ اپنے بھائي عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تنعیم گئيں خاص ہے ۔
اورعلماء کرام کے ہاں یہ قاعدہ معروف اورمسلمہ ہے کہ جب عام اورخاص کا آپس میں تعارض ہوتوعام کوخاص پرمحمول کرتے ہوئے خاص پرعمل کیا جائےگا ، اوریہاں بھی وہی ہے کہ تنعیم یا حل کی کسی دوسری جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنا ، تو ( حتی کہ اہل مکہ مکہ ہی سے ) کا معنی یہ ہوگا کہ :
اہل مکہ حج مفرد یا حج اورعمرہ کا اکٹھا ہی احرام مکہ سے ہی باندھیں گے اورانہيں حل یا حدیث میں مذکور دوسرے میقات کی طرف نکلنے کی ضرورت نہيں تا کہ وہ وہاں سے احرام باندھ سکیں ۔
لیکن صرف عمرہ کے لیے یہ ہے کہ جوکوئي بھی صرف عمرہ کا احرام باندھنا چاہے اوروہ مکہ کا رہائيشی ہو یا حرم کی حدود میں رہتا ہو تواسے حل کی جانب نکلنا ہوگا یعنی تنعیم وغیرہ کی طرف تا کہ وہ وہاں سے احرام باندھے ، جمہورعلماء کرام کا یہی کہنا ہے ، بلکہ المحب طبری کا کہنا ہے کہ : مجھے کسی کے بارہ میں علم نہیں کہ اس نے مکہ کوعمرہ کے لیے میقات مقررکیا ہو۔ اھ
تواس طرح ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( حتی کہ اہل مکہ مکہ سے ہی ) کوحج مفرد اورقران والے متعین کیا جائے گا ،نہ کہ صرف عمرہ کرنے والے کے لیے ۔
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب بھی کسی دومعاملوں میں اختیاردیا جاتا توآپ اگروہ گناہ نہ ہوتا تواس میں سے آسان کواختیارکرتے تھے ، لھذا اگر صرف عمرہ کا احرام حرم کی حدود سے باندھے کی اجازت ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے لیے اختیارکرلیتے ، کیونکہ یہ ان کے لیے بھی اورعائشہ اوران کے بھائي کے لیے بھی آسان تھا اوراس میں تکلیف اورمشقت بھی کم تھی ، لھذا آپ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوتنعیم یا حل جاکراحرام باندھنے کا حکم نہ دیتے ۔
لھذا ان کا حرم کی حدود سے احرام باندھنے سے احتراض کرنا جوکہ حل میں جاکراحرام باندھنے سے سب کے لیے آسان اورسہل ہے حالانکہ حل جانے میں مشقت اورتکلیف ہے اورپہلے معاملے یعنی حرم سے احرام باندھنے میں کوئي مشقت نہيں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف عمرے کا احرام حرم کی حدود کی بجائے حل سے باندھنا شرعی مقصود ہے اورشرعی طور پرمامور ہے کہ جوحرم میں رہتے ہوئے صرف عمرہ کرنا چاہے وہ حل جاکراحرام باندھے ۔/
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 143 ) ۔
واللہ اعلم .