"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سات سال قبل میں قسمت کا حال بتلانے والے نجومی اور پھر ایک کاہن کے پاس گیا تھا، میں اس وقت وسوسوں کی بیماری میں مبتلا تھا، اس وقت میں جانتا تھا کہ کاہن یا نجومی کے پاس جانا شرکیہ عمل ہے، لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ شرک کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ مجھے نہیں علم تھا کہ شرک کرنے سے انسان ملت اسلامیہ سے باہر ہو جاتا ہے، بہ ہر حال اتنے سال گزرنے کے بعد میں نے تمام گناہوں سے توبہ کر لی اور میں نے کتاب التوحید کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ میں اپنا عقیدہ صحیح کر سکوں، دوران مطالعہ مجھے معلوم ہوا کہ میں تو شرک اکبر میں مبتلا ہو چکا ہوں، تو کیا میں توبہ کر سکتا ہوں؟ یا مجھے کلمہ شہادت دوبارہ پڑھنا پڑے گا؟
الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو توبہ کرنے کی توفیق دی، اور ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو ثابت قدمی اور راہ حق پر استقامت عطا فرمائے۔
دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کاہنوں اور کیافہ شناسوں کے پاس جانے کی حرمت سے متعلق بہت زیادہ احادیث ثابت ہیں، اس بارے میں جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (8291) کا مطالعہ کریں۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ ہر کاہن یا نجومی کے پاس جانے والا شخص مشرک یا ملت اسلامیہ سے خارج جنہیں ہو جاتا، بلکہ کاہن یا کیافہ شناس کے پاس جانے کے حکم میں کچھ تفصیل ہے، چنانچہ کبھی اس کا حکم شرک اکبر والا ہوتا ہے تو کبھی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے اور کبھی ان کے پاس جانا جائز ہوتا ہے۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کاہن کے پاس جانے والوں کی تین اقسام ہیں:
پہلی قسم: ایک شخص کاہن سے آ کر قسمت کا حال اس سے تصدیق کیے بغیر پوچھتا ہے تو یہ حرام کام ہے، اور اس کے مرتکب کی سزا یہ ہے کہ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کی جاتی، جیسے کہ صحیح مسلم: (2230) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی نجومی وغیرہ کے پاس آ کر اس سے قسمت کا حال پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں کی جاتی۔)
دوسری قسم: کاہن کے پاس آئے اور اس کی بتلائی ہوئی بات کی تصدیق بھی کرے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے؛ کیونکہ اس شخص نے کاہن کے علم غیب جاننے کے دعوے کی تصدیق کی ہے، اور کسی انسان کا علم غیب جاننے کا دعوی کرنا اللہ تعالی کے فرمان: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ترجمہ: کہہ دو: آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا۔[النمل: 65] کی تکذیب ہے؛ اسی لیے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کاہن کے پاس آ کر اس کی کہی ہوئی بات کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ وحی کا انکار کیا)
تیسری قسم: کوئی شخص کسی کاہن کے پاس آ کر امتحان لینے کے لیے سوال کرتا ہے تا کہ لوگوں کو بتلا سکے کہ یہ محض اٹکل پچو، شعبدہ بازی اور گمراہ کن باتیں ہوتی ہیں ، تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابن صیاد کے پاس آئے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا امتحان لینے کے لیے اپنے دل میں ایک بات چھپائی ، پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے اپنے دل کی بات پوچھی تو اس نے کہا: دھواں، یعنی آپ نے دھواں دل میں چھپایا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل شیخ ابن عثیمین" (2/184)
اس بنا پر اگر کوئی شخص کسی کیافہ شناس یا کاہن یا نجومی کے پاس آئے اور اس کی بات کو یہ مانتے ہوئے سچ کہے کہ وہ نجومی وغیرہ علم غیب جانتا ہے، تو اس شخص نے کفر اکبر کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کے سچے ہونے کا نظریہ نہیں رکھتا تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
بہ ہر حال توبہ کا دروازہ ہر وقت اور ہمیشہ سے کھلا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً اللہ تعالی بندے کی توبہ موت کا غرغرہ شروع ہونے سے پہلے پہلے قبول فرماتا ہے۔) ترمذی: (3537)
غرغرے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک روح حلق تک نہیں پہنچتی۔
انسان جس گناہ سے بھی توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ترجمہ: آپ کہہ دیں: اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔[الزمر: 53]
اس لیے انسان سے جس قسم کا بھی گناہ ہو جائے اور پھر توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے چاہے وہ گناہ شرک ہی کیوں نہ ہو۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9393) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اصولی طور پر کافر شخص اور اسی طرح مرتد آدمی سے اسلام میں داخل ہونے کے لیے کلمہ شہادت پڑھنے کا مطالبہ کیا جائے گا، چنانچہ اگر آپ کاہن کے پاس دوسری قسم کے تحت گئے تھے تو پھر لازمی طور پر کلمہ شہادت پڑھیں، تاہم چونکہ آپ نے توبہ کر لی ہے اور راہ راست پر گامزن ہو گئے ہیں اس لیے آپ نے کئی بار کلمہ شہادت پڑھ لیا ہو گا، اس لیے اب آپ کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم یہ عزم ضرور کریں کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔
آپ حصول علم کے لیے کوشش کرتے رہیں تا کہ آپ بصیرت پر رہتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت کر سکیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم