"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں اوقات مجھ سے نماز ميں غلطى ہو جاتى اور مجھے ركعات كى تعداد يا اس طرح كى اشياء كى علم نہيں رہتا، كيا ميں نماز توڑ كر نئے سرے سے شروع كروں يا كہ نماز كى ادائيگى جارى ركھوں ؟
الحمد للہ.
فضيلۃ الشيخ محمد العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے يہ سول دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
صحيح يہى ہے كہ نماز باطل نہيں ہوتى، كيونكہ انسان كے بغير كسى اختيار كے ہى شك بہت آتا رہتا ہے، اور پھر نماز ميں شك پيدا ہو جانے والے شخص كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم بھى بيان فرمايا ہے، شك دو اقسام ہيں:
پہلى قسم:
انسان كى ركعات كى تعداد ميں شك ہو اور دونوں ميں سے كوئى ايك طرف راجح ہو يعنى تين يا چار ميں سے كوئى ايك راجح ہو تو اس حالت ميں انسان كے نزديك جو راجح ہے اس پر اعتماد كرتے ہوئے اپنى نماز مكمل كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كرے.
دوسرى قسم:
انسان كو ركعات كى تعداد ميں شك ہو ليكن دونوں ميں سے كوئى ايك راجح نہ ہو تو اس صورت ميں وہ كم از كم پر اعتماد كرے كيونكہ يہ يقينى ہے، اور زائد مشكوك ہے، چنانچہ كم ركعات پر اعتماد كرتے ہوئے نماز مكمل كرے، اور سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كر لے، اس سے نماز باطل نہيں ہو گى .
واللہ اعلم .