"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے ایک پرانے ویڈیو کلپ پر 2020 عیسوی میں ہونے والے معاملات کے متعلق کسی کاہنہ کا تبصرہ پڑھا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ اس نے سچ بولا تھا یا نہیں، تو کیا میری 40 دن کی نمازیں قبول نہیں کی جائیں گی؟
الحمد للہ.
نجومیوں سے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی نجومی کے پاس آ کر اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں کی جاتی۔) مسلم: (2230)
یہ وعید ایسے شخص کے بارے میں ہے جو پوچھنے کے بعد ان کی تصدیق نہیں کرتا، لیکن جو شخص اس کی بات کی تصدیق بھی کر دے تو معاملہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص حائضہ عورت سے ہمبستری کرے یا اپنی بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے ، یا کسی کاہن کی کہی ہوئی بات کی تصدیق کر ے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کے ساتھ کفر کیا۔) مسند احمد: (9779)، ابو داود: (3904)، ترمذی: (135) اور ابن ماجہ: (639) نے اسے روایت کیا ہے، نیز البانیؒ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
کاہنوں اور نجومیوں کی تحریریں پڑھنا حرام ہے، یہ بھی ان سے سوال کرنے کے قریب ہی ہے۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (1/ 434) میں ہے کہ:
"اہل کتاب کی کتب پڑھنا جائز نہیں ہے، امام احمد نے صراحت کے ساتھ یہ موقف ذکر کیا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت سیدنا عمر کے پاس تورات کا ایک صحیفہ دیکھا تو غضب ناک ہو کر فرمایا: (ابن خطاب! کیا تمہیں میرے بارے میں شک ہے؟) الحدیث۔ اسی طرح بدعتی لوگوں کی کتابوں سمیت ایسی کتابوں کو پڑھنا بھی جائز نہیں ہے جن میں سچی اور جھوٹی ہر قسم کی باتیں ہوتی ہیں، نہ ہی ان کتب کو آگے بیان کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس سے عقائد میں خرابیاں پیدا ہوں گی۔ " ختم شد
پھر اسی کتاب کے صفحہ نمبر: (3/ 34) پر حرام علوم کے بیان میں لکھا ہے کہ: "حرام علوم جیسے کہ: علم الکلام، فلسفہ، شعبدہ بازی، علم النجوم، قسمت کا حال معلوم کرنے میں معاون علوم، ۔۔۔ جادو اور طلسمات کا علم جو کہ غیر عربی زبان میں ہو کیونکہ عربی کے علاوہ زبان میں اس کا معنی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ جیسے کہ اس کی تفصیل ارتداد کے بیان میں آئے گی۔۔۔
اسی طرح یہ بھی حرام ہے کہ کسی آدمی کے نام اور اس کی والدہ کے نام سے حساب لگانا، علم الجمل، تاروں اور برجوں کے ذریعے کسی کی غربت، یا امیری کا حساب لگانا، اسی طرح فلکی دلائل کے ذریعے سفلی حالات کشید کرنا وغیرہ بھی حرام ہے۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (1/203) میں ہے:
"سوال: اخبارات اور جرائد میں موجود برجوں کے ذریعے بیان کیے گئے قسمت کے حالات پر یقین رکھنے اور انہیں پڑھنے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب: خوش قسمتی اور بد قسمتی کو برجوں سے منسلک کرنا قدیم مجوسیوں ، لا دین فلسفیوں اور دیگر کافر و مشرکین کا طریقہ ہے۔ قسمت کے احوال جاننے کا دعوی در حقیقت علم غیب جاننے کا دعوی ہے جو کہ اللہ تعالی کے فیصلوں میں اللہ تعالی کی مخالفت ہے ؛ اور یہی مخالفت شرک عظیم ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ دعوی ذاتی طور پر دجل، جھوٹ اور لوگوں کو فریب دینے کے مترادف ہے، لوگ ایسے دعووں کے ذریعے حرام کھاتے ہیں اور ان کے عقائد بھی خراب کرتے ہیں۔
اس بنا پر قسمت کا حال بتلانے کے لیے برجوں سے متعلق معلومات نشر کرنا، ایسی تحریریں پڑھنا ، لوگوں میں انہیں پھیلانا سب کام حرام ہیں، اسی طرح ان کی تصدیق کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ یہ کفریہ نظریات میں سے ہیں، ان پر یقین رکھنے سے عقیدہ توحید پر منفی اثرات پڑتے ہیں، چنانچہ ایسے نظریات سے خود بھی لازمی طور پر دور رہیں اور دوسروں کو بھی ان سے روکیں، صرف اللہ تعالی پر ہی بھروسا کریں اور تمام معاملات میں اللہ تعالی پر ہی توکل کریں۔
بکر ابو زید عبد العزیز آل الشیخ صالح الفوزان عبد اللہ غدیان عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
چنانچہ اگر آپ نے عمداً ایسی تحریر پڑھی ہے تو پھر آپ اللہ تعالی سے توبہ مانگیں اور استغفار کریں، نیز آئندہ ایسا کام مت کریں۔
واللہ اعلم