"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
قبرستان میں جا کر کیسے سلام کرتے ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام پر سلام پڑھنے کے طریقے میں کوئی فرق ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک پر "السلام علیک یا رسول اللہ!" کہیں اور قبرستان میں جا کر "السلام علیکم یا اہل القبور" کہیں؟ یا یہ کہنا شرک ہو گا؟
الحمد للہ.
مَردوں کےلیے قبرستان کی زیارت کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق فرمایا: (میں تمہیں قبرستان جانے سے روکا کرتا تھا، اب تم قبرستان جایا کرو) مسلم: (977) اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ: (یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی۔) اس روایت کو امام احمد : (1240) اور ابن ماجہ: (1569) نے بیان کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
نیز یہ بھی مستحب ہے کہ جب کوئی مسلمان قبرستان جائے تو وہاں مدفون لوگوں کو مسنون الفاظ میں سلام کہے اور ان کے لیے دعا کرے، یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو سکھائے تھے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کے رسول! میں قبرستان میں مدفون لوگوں کے لیے کیسے دعا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم کہو: اَلسَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِيْنَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُوْنَ ترجمہ: قبروں والے مؤمنوں اور مسلمانوں پر سلامتی ہو ، اللہ تعالی ہمارے پیش رو اور بعد میں آنے والے سب لوگوں پر رحم فرمائے، اور یقیناً ہم سب بھی تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔) مسلم: (974)
بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کو قبرستان جاتے ہوئے دعا سکھاتے تھے ، تو صحابہ کرام قبرستان میں جاتے ہوئے کہتے: اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ ترجمہ: قبروں والے تم مؤمنوں اور مسلمانوں پر سلامتی ہو ، اور یقیناً ہم سب بھی تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت طلب کرتے ہیں۔) مسلم: (975)
اور صحابہ کرام کی قبروں پر بھی سابقہ دعائیں ہی پڑھی جائیں گی، ان کی قبروں کے لیے کوئی خاص دعا نہیں ہے۔
تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک، آپ کے دونوں صحابیوں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبر پر سلام کے لیے صحابہ کرام سے مخصوص الفاظ منقول ہیں، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ کہا کرتے تھے کہ: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أبتِ} یعنی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر سلامتی ہو، اے ابو بکر آپ پر سلامتی ہو، اے میرے والد محترم آپ پر سلامتی ہو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ کہہ کر چلے جاتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
بعض اہل علم سلام کے ان الفاظ میں مزید کچھ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خِيْرَةَ اللهِ مِنْ خَلْقِهِ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِيْنَ ... أَشْهَدُ أَنَّكَ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ} یعنی: اے اللہ کی مخلوق میں سے سب سے بہترین شخصیت آپ پر سلامتی ہو ، اے سید المرسلین آپ پر سلامتی ہو، ۔۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا۔
دیکھیں: الأذكار ، از علامہ نووی، صفحہ: 174 ، المغنی، از ابن قدامہ: (5 / 466)
علامہ طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے دونوں صحابہ کرام کی قبروں کی زیارت کرنے والا مذکورہ لمبا سلام کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن پھر بھی منقول الفاظ پر اکتفا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ختم شد
علامہ طبری کا مطلب یہ ہے کہ: جو الفاظ صحابہ کرام سے منقول ہیں انہی پر اکتفا کرے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مناسک حج و عمرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"مسجد نبوی میں جیسے ہی پہنچے سب سے پہلے حسب توفیق نوافل ادا کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے دونوں صحابہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ پر سلام پڑھنے کے لیے روانہ ہو۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کے سامنے قبلے کی جانب پیٹھ کر کے اور قبر کی جانب رخ کر کے کھڑا ہو اور کہے: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ} یعنی: اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر سلامتی، اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔
اور اسی طرح کے دیگر مناسب الفاظ بھی شامل کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے مثلاً: کہے: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَلِيْلَ اللهِ وَأَمِيْنَهُ عَلَى وَحْيِهِ، وخِيْرَتَهُ مِنْ خَلْقِهِ ، أَشْهَدُ أَنَّكَ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ وَنَصَحْتَ الْأُمَّةَ، وَجَاهَدْتَّ فِيْ اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ} یعنی: اے خلیل اللہ ، وحی الہی کے امین ، خلقِ خدا کے بہترین فرد آپ پر سلامتی ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، اپنی ذمہ داری ادا کر دی، اور امت کی خیر خواہی کے ساتھ راہ الہی میں کما حقہ جہاد بھی کیا۔
اور اگر سلام کے منقول الفاظ پر اکتفا کرے تو یہ اچھا ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جس وقت سلام پڑھتے تو کہا کرتے تھے: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أبتِ} یعنی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر سلامتی ہو، اے ابو بکر آپ پر سلامتی ہو، اے میرے والد محترم آپ پر سلامتی ہو۔ اور پھر چلے جاتے۔
2- اس کے بعد اپنی دائیں جانب مزید آگے بڑھے تا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہو جائے اور کہے: { اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَلِيْفَةَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ أُمَّتِهِ، رَضِيَ اللهُ عَنْكَ وَجَزَاكَ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ خَيْرًا} یعنی: اے ابو بکر آپ پر سلامتی ہو، اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے امت محمدیہ کے لیے خلیفہ آپ پر سلامتی ہو، اللہ تعالی آپ سے راضی ہوا، اور اللہ تعالی آپ کو امت محمدیہ کی جانب سے بہترین صلہ عطا فرمائے۔"
3- پھر اس کے بعد مزید اپنی دائیں جانب بڑھے تا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہو جائے اور کہے: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا عُمَرُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، رَضِيَ اللهُ عَنْكَ وَجَزَاكَ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ خَيْرًا} یعنی: اے عمر -رضی اللہ عنہ-آپ پر سلامتی ہو، اے امیر المومنین آپ پر سلامتی ہو، اللہ تعالی آپ سے راضی ہوا، اور اللہ تعالی آپ کو امت محمدیہ کی جانب سے بہترین صلہ عطا فرمائے۔
یہاں یہ بھی خیال رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے دونوں صحابہ کرام پر سلام نہایت ادب، اور دھیمی آواز میں پڑھا جائے؛ کیونکہ مسجد میں آواز بلند کرنا منع ہے، اور مسجد نبوی میں اور قبرِ نبوی کے پاس تو آواز مزید دھیمی ہونی چاہیے۔"
مناسك الحج والعمرة والمشروع في الزيارة ، صفحہ: ( 107 ، 108)
قبرستان جا کر کسی کا یہ کہنا کہ: السلام علیکم، یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی زیارت کرتے ہوئے السلام علیک یا رسول اللہ کہنا یہ کوئی شرک نہیں ہے؛ کیونکہ یہ مردوں سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا مطالبہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو انہی فوت شدگان کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالی بندے کو موت کے بعد ملنے والے عذاب قبر، حشر و نشر، حساب کتاب، اور قیامت کی ہولناکی جیسی ہمہ قسم کی خطرے کی چیزوں سے انہیں محفوظ رکھے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی دنیا و آخرت میں ڈھیروں سلامتی اور عافیت عطا فرمائے۔
واللہ اعلم
مزید کے لیے دیکھیں:
زاد المستنقع ، صفحہ: (5 / 473) ، اور دیکھیں: أشراط الساعة ، از ڈاکٹر یوسف الوابل، صفحہ: (337)