"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا کوئی تاجر اشیائے فروخت کی قیمت ان کی ڈلیوری کے وقت کرے تو ادائیگی میں تاخیر کا معاوضہ لے سکتا ہے؟ مثلاً انٹرنیٹ کے ذریعے کوئی چیز خریدی جا رہی ہے اور وہاں یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ چیز کی وصولی پر ادائیگی کی جائے، لیکن اس کو اختیار کرنے پر اضافی رقم وصول کی جاتی ہے جو کہ ظاہر ہے کہ تاخیر کا معاوضہ ہے، تو کیا اس طرح سے کوئی چیز فروخت کرنا جائز ہے؟
الحمد للہ.
انٹرنیٹ کے ذریعے متعدد طریقوں سے خریداری ہوتی ہے، تو کچھ صورتوں میں وصولی کے وقت ادائیگی کرنا جائز ہے، جبکہ کچھ صورتوں میں جائز نہیں ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی معین لیکن غائب چیز کی فروخت کے مسئلے میں امام احمد سے تین اقوال منقول ہیں: 1) غائب چیز کو فوری ادائیگی کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں ہے، یہی امام شافعی کا نیا موقف ہے۔ 2) یہ فروختگی صحیح ہے چاہے اس کی تفصیلات بیان نہ کی جائیں، لیکن خریدار کو دیکھنے کے بعد مکمل اختیار حاصل ہو گا، یہ موقف امام ابو حنیفہ کے موقف جیسا ہے۔ تاہم امام احمد سے اس صورت میں عدم اختیار بھی منقول ہے۔ 3) تیسرا موقف جو کہ امام احمد سے مشہور بھی ہے کہ اگر اس غائب چیز کی تفصیلات بیان کر دی جائیں تو صحیح ہے، وگرنہ صحیح نہیں ہے، جیسے کہ مطلق فی الذمہ چیز کے بارے میں موقف ہے، اور یہی موقف امام مالک کا بھی ہے۔ " ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/ 25)
یہ اس صورت میں ہے جب اس کی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔
لیکن جب اس چیز کی تفصیلات اتنی بیان کر دی جائیں کہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے کافی ہوں، یا اس کی تصویر دکھا دی جائے اور تصویر بھی اس کے بارے میں جاننے کے لیے کافی ہو تو یہاں فروختگی کے صحیح ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
اور ایسی صورت میں مؤخر ادائیگی ؛ فوری ادائیگی سے زیادہ ہو تو یہ بھی جائز ہے ، لہذا کہا جائے کہ: جو نقد ادائیگی میں خریدے تو اس کے لیے 100 میں اور جو وصولی کے وقت ادائیگی کرے تو 120 میں ملے گی۔ لیکن یہاں یہ ضروری ہے کہ متعین کر لیا جائے کہ نقد ادائیگی ہے یا مؤخر؟ خریدار ان دونوں صورتوں میں سے ایک کو متعین کر لے، اور اگر متعین نہ کرے تو مجلس بیع میں قیمت نا معلوم ہونے کی وجہ سے یہ بیع درست نہیں ہو گی۔
اس صورت میں اضافی ادائیگی کا امکان ہی نہیں ہے؛ کیونکہ قیمت تو ادا ہو چکی ہے اور مبیع ابھی بائع کے پاس ہے۔
مال جب خریدار کے پاس پہنچ گیا ہے تو یہ حاضر چیز کی فروختگی ہے۔
لہذا یہ جائز نہیں ہو گا کہ مال خریدار کے پاس پہنچنے سے پہلے اس کی فروختگی عمل میں لائی جائی؛ کیونکہ اس صورت میں مبیع کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور مجلس عقد میں اس کی قیمت بھی ادا نہیں کی گئی تو گویا مجلس عقد میں ادھار کی ادھار سے فروختگی ہو گی۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/ 37) میں کہتے ہیں:
"ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ ادھار چیز کی ادھار چیز کے بدلے میں فروختگی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس پر اجماع ہے۔ ایسے ہی ابو عبیدؒ اپنی کتاب غریب الحدیث میں کہتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ادھار کی ادھار کے بدلے میں فروختگی کو منع فرمایا ہے) لیکن اثرم ؒ نے امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان سے اس حدیث کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔" ختم شد
لہذا خریدار کے پاس جب مبیع آ جائے تو اس وقت خرید و فروخت کریں۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ پہلی صورت کے علاوہ کسی بھی صورت میں اضافی رقم کا تصور بھی نہیں ہے، پہلی صورت میں اس طرح کہ جب کوئی معین چیز نقد یا ادھار قیمت میں فروخت کی جائے ، اس لیے اس صورت میں خریداری کرتے ہوئے نقد یا ادھار معین کرنا ضروری ہوتا ہے۔
واللہ اعلم