"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا شريعت اسلاميہ ميں ٹيلى ويژن ديكھنا مباح ہے ؟
اور اگر مباح ہے تو كيا اس كے ليے كوئى شروط ہيں ؟
الحمد للہ.
فلم بينى ميں بہت سى شرعى ممانعت پائى جاتى ہيں، جس ميں بے پردگى، اور موسيقى كا سننا، اور فاسد و غلط قسم كے اعتقادات، اور كفار سے مشابہت كى دعوت وغيرہ اشياء شامل ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى نے ہميں نظريں نيچى ركھنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
مسلمان مردوں سے كہو كہ اپنى نگاہيں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت ركھيں، يہى ان كے ليے پاكيزگى ہے، لوگ جو كچھ كريں اللہ تعالى سب سے خبردار ہے .
اورمسلمان عورتوں سے بھى كہہ ديں كہ وہ بھى اپنى نظريں نيچي ركھيں، اور اپنى عصمت ميں فرق نہ آنے ديں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں النور ( 30 - 31 ).
جب شرمگاہ كى حفاظت ميں اصل چيز نظريں نيچى ركھنا تھا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے سب سے پہلےاسى كو ذكر كيا، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے آنكھ كو دل كا آئنہ قرار ديا، تو جب بندہ اپنى نگاہيں جھكاتا اور نيچى ركھتا ہے تو دل بھى اپنى شہوت و ارادہ كو نيچا ركھتا اور دبا ديتا ہے، اور جب بندہ اپنى نظر كو اوپر كر كے ارد گرد حرام اشياء ديكھتا ہے، تو دل بھى شہوت كو كنٹرول نہيں كرتا بلكہ اسے كھلا چھوڑ ديتا ہے.
صحيح مسلم ميں فضل بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كا قصہ منقول ہے كہ:
فضل بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ عيد الاضحى كے دن مزدلفہ سے منى جاتے ہوئے اونٹنى پر آپ كے پيچھے سوار تھے، تو قريب سے سوار عورتيں گزريں تو فضل ا نكى جانب ديكھنے لگے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فضل كا سر دوسرى جانب پھير ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
اور يہ بالفعل ايسا كرنے سےمنع كرنا، اور اس پرانكار ہے، اور اگر جائز ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں ايسا كرنے ديتے.
اور صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
" اللہ تعالى نے ابن آدم كا زنا ميں سے حصہ لكھ ديا ہے، جسے وہ لا محالہ پائيگا، آنكھ زنا كرتى ہے، اور ا سكا زنا ديكھنا ہے، اور زبان زنا كرتى ہے ا سكا زنا كلام كرنا ہے، اور پاؤں زنا كرتے ہيں ا سكا زنا چلنا ہے، اور ہاتھ زنا كرتا ہے ا سكا زنا پكڑنا ہے، اور دل خواہش كرتا اور چاہتا ہے، اور شرمگاہ اس كى تصديق يا تكذيب كرتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6343 ).
اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى آنكھ كے زنا سے ابتدا كى كيونكہ ہاتھ پاؤں، اور دل اور شرمگاہ كے زنا كى اصل اور جڑ يہى آنكھ ہے، اور زبان كے زنا كو كلام سے تنبيہ كرتے ہوئے بتايا كہ منہ كا زنا بات چيت ہے، اور اگر ايسا فعل ہو جائے ت واسے شرمگاہ كى تصديق قرار ديا اور اگر وہ فعل پورا نہ ہو تو اسے شرمگاہ كى تكذيب قرار ديا.
اور يہ حديث اس بات كى واضح ترين دليل ہے كہ آنكھ ديكھ كر نافرمانى كرتى ہے، اور يہ ديكھنا ہى ا سكا زنا ہے، تو اس طرح اس حديث ميں مطلقا نظر اور ديكھنے كو مباح كہنے والوں كا رد پايا جاتا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى ثابت ہے:
آپ نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا: اے على تم ايك نظر كے بعد دوسرى نظر نہ دوڑاؤ، آپ كے ليے پہلى تو ہے، ليكن دوسرى نہيں "
اور يہ نظر ايسى خطرناك چيز ہے، اور وہى عمل كرتى ہے جو ايك تير كسى شكار كے جسم ميں جا كر كرتا ہے، اگر اسے قتل نہ كرے تو اسے زخمى ضرور كر دےگا، اور يہ آگ كى چنگارى كى طرح ہے جو خشك گھاس ميں گرنے كے بعد اگر سارى گھاس نہ جلائے تو ا سكا كچھ حصہ تو ضرور جلا كر راكھ كر ديگى.
اللہ تعالى درج ذيل اشعار كہنے والے پر رحم كرے:
ہر حادثے كى ابتداء نظر ہے اور زيادہ آگ چھوٹى سے چنگارى سے لگتى ہے.
كتنى ہى نظريں ايسى ہيں جو دل ميں بغير كمان اور تندى كے ہى تير جيسا زخم كرتى ہيں.
اور جب مرد آنكھوں والا ہو كر كسى دوسرے كى آنكھوں ميں ديكھتا ہے تو وہ خطرہ سے دوچار ہے.
اسے وہ بات اچھى لگتى ہے جس نے اس كے آرام ميں نقصان پہنچايا ہے ايسى خوشى كوئى اچھى نہيں جو بالآخر نقصان دے.
اسى ليے شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس طرح كے سوال كے جواب ميں كہا ہے:
اور ٹيلى ويژن ايك بہت ہى زيادہ خطرناك آلہ ہے، جس كے نقصانات بہت زيادہ ہيں، يہ سينما كى طرح ہے، يا اس سے بھى زيادہ شديد نقصاندہ ہے، اس كے متعلق لكھے گئے كتابچوں، اور عرب ممالك اور غير عرب ممالك ميں اس كے بارہ ميں جاننے والوں كى كلام سے ہميں يہ علم ہوا ہے كہ يہ بہت زيادہ نقصاندہ ہے، اور مسلمان كے عقيدہ اور اخلاقيات پر بہت برا اثر پڑتا ہے، اور معاشرہ كے ليے نقصاندہ ہے، كيونكہ اس ميں گرے ہوئے اخلاق پر مشتمل ڈرامے پيش كيے جاتے ہيں، اور بےپرد عورتوں كى تصاوير اور گندى تصاوير اور تقريبا ننگى اور بےلباس عورتوں كو پيش كيا جاتا ہے، اور اس ميں كفريہ مقالات اور غلط قسم كى تقارير پيش كى جاتى ہيں، اور كفار كے اخلاق و عادات اور لباس ميں ا نكى مشابہت كى ترغيب دلائى جاتى ہے، اور كفار كے سرداروں اور زعماء كى تعظيم اور مسلمانوں كے اخلاق كو ترك كرنے، اور مسلمان علماء كرام اور قائدين اسلام كى تحقير ہوتى ہے، اور انہيں نفرت دلانے والى صورت ميں پيش كيا جاتا ہے، جو ان كے ساتھ حقارت آميز رويہ ركھنے كا تقاضہ كرتى ہيں، اور ا نكى سيرت سے اعراض كا سبق ديا جاتا ہے، اور مكر و فريب اور چالبازيوں كے طريقہ سكھائے جاتے ہيں، اور حيلہ سازى، و مال چھيننے اور چورى لوگوں سے دشمنى كى صورتيں اور طريقہ بتائے جاتے ہيں.
بلا شك و شبہ جو چيز اس طرح كى ہو، اور اس كے نتيجہ ميں كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہوں، اس سے منع كرنا اور اجتناب كرنا واجب و ضرورى ہے، اور اس كى طرف لے جانے والے ذرائع كو بھى بند كرنا چاہيے، تو اگر دينى شغف ركھنے والے بھائى اس چيز سے روكيں اور بچنے كا كہيں تو ان پر كوئى ملامت نہيں، كيونكہ يہ اللہ اور اس كے بندوں كى خير خواہى كى نصيحت ہے.
اور جو شخص يہ گمان كرے كہ يہ آلہ ان برائيوں سے پاك ہے، اوراس ميں صرف عمومى مصلحت كى اشياء ہى ٹيلى كاسٹ كى جاتى ہيں، جب اس كى نگرانى كى جائے، تو اس كى يہ بات بہت ہى غلط ہے، كيونكہ نگران غفلت كا شكار ہو سكتا ہے، اور اب تو لوگوں پر باہر كى تقليد اپنانے كا زيادہ رجحان ہے، اور جو كچھ اس ميں كيا جائے اس كى عادات اپنانے كى كوشش كرتے ہيں.
اور اس ليے بھى كہ بہت كم ايسى نگرانى ملے گى جو وہى كچھ كرے جو اس كے ذمہ لگايا جائے، اور خاص كر اس دور ميں جس ميں اكثر لوگ لہو ولعب اور باطل، اور ہدايت سے روكنے كى طرف مائل ہيں، اور واقعات اس كے شاہد ہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں ہر قسم كى برائى سے محفوظ ركھے، يقينا وہ بڑا سخى و كرم والا ہے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 3 / 227 ).
واللہ اعلم .