"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرا سوال حج میں جلدی کرنے کے بارہ میں ہے کہ جلدی کرنے والا شخص بارہ تاریخ کوہی کیوں سفرکرجاتا ہے اورتاخیرکرنےوالا تیرہ تاریخ کوجاتا ہے حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
﴿ فمن تعجل فی یومین ﴾ اس طرح جلدی توگیارہ تاریخ کوہونی چاہیے ؟
الحمد للہ.
آیت کا معنی یہ ہے کہ جوکوئي ایام تشریق کے دودنوں میں جلدی کرنا چاہے ، جوگیارہ اوربارہ اورتیرہ ذوالحجہ کوبنتے ہیں ، تواس طرح تعجیل یعنی جلدی بارہ تاریخ کوبنے گی ، لگتا ہے کہ سوال کرنے والے نے پہلا دن عید کا شمار کیا ہے اس لیے وہ یہ سوال کررہا ہے ، اورایسا سمجھنا غلط ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
میں اپنے بھائیوں حجاج کرام کواس غلطی پرمتنبہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سارے حجاج کرام یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے فرمان :
فمن تعجل فی یومین کا معنی گیارہ تاریخ کومنی سے نکل جانے کوتعجیل شمار کرتے ہيں یعنی عید اورگیارہ تاریخ کودو دن شمار کرلیتے ہیں ، حالانکہ معاملہ ایسے نہيں بلکہ انہوں نے غلط سمجھا ہے ، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
﴿اورچندگنے چنے دنوں میں اللہ تعالی کا ذکر کرو توجوکوئي بھی دودنوں میں جلدی کرلے اس پرکوئي گناہ نہيں ﴾ ۔
اس آیت میں ایام معدودات یعنی چندگنے چنے ایام سے مراد ایام تشریق ہیں ، اورایام تشریق کا پہلا دن گیارہ تاریخ کوبنتا ہے تواس طرح اللہ تعالی کے فرمان فمن تعجل فی یومین کا معنی یہ ہوگا کہ : جس نے بھی ایام تشریق کے دو دنوں میں جلدی کی جوکہ بارہ ذوالحجہ کا دن بنتا ہے اس پرکوئي گناہ نہيں لھذا انسان کوچاہیے کہ وہ اس مسئلہ کے بارہ میں مفھوم کوصحیح کرے تاکہ وہ غلطی کا مرتکب نہ ہو ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ نمبر ( 566 ) ۔
واللہ اعلم