"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كسى اسلامى ملك كى جانب ہجرت كرنا سنت ہے، لھذا كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرح برطانيا سے سعودى عرب كے شہر مدينہ طيبہ ميں منتقل ہونا جائز ہے ؟
الحمد للہ.
ايسے شخص كے ليے جو كفار ممالك ميں رہ كر اسلامى شعار اور احكام پر عمل نہيں كر سكتا، اور اپنے دين كا كھلے عام اظہار نہيں كر سكتا اس كے ليے كفريہ ممالك كو خير باد كہہ كر كسى اسلامى ملك كى جانت ہجرت كرنا واجب ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرما ن ہے:
جو لوگ اپنى جانوں پر ظلم كرنے والے ہيں جب فرشتے ان كى روح قبض كر تے ہيں تو پوچھتے ہيں، تم كس حال ميں تھے؟ يہ جواب ديتے ہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتے كہتے ہيں كيا اللہ تعالى كى زمين كشادہ اور وسيع نہ تھى كہ تم ہجرت كر جاتے؟ يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے، اور وہ پہنچنے كى بہت برى جگہ ہے النساء ( 97 )
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميں ہر اس مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہتا ہے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 )، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ليكن جو اپنے دين كو ظاہر كرنے پر قادر ہو اس پر ہجرت كرنى واجب نہيں ہے.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13363 ) كا جواب ديكھيں.
اور اگر وہ يہ ديكھے كہ اس كا اپنے ملك ميں رہنا لوگوں كو دعوت الى اللہ دينے اور تبليغ كرنے ميں زيادہ سود و نفع مند ہے، اور اسے اپنے دين كا بھى خطرہ نہيں تو پھر اس كا اس ملك ميں ہى رہنا ہجرت كرنے سے افضل اور بہتر ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 47672 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
اور ہجرت كے ليے شرط نہيں كہ شرط مدينہ شريف كى طرف ہى كى جائے، بلكہ ہجرت ہر اس اسلامى ملك كى طرف كى جا سكتى ہے جہاں وہ رہ كر اور بود و باش اختيار كركے دينى احكام و شعار پر عمل پيرا رہ سكے، اور اسے اپنے دين كا كوئى خطرہ نہ ہو.
آپ اسلامى ملك كى طرف ہجرت كے حكم كى تفصيل سوال نمبر ( 7191 ) كے جواب ميں ديكھيں.
واللہ اعلم .