"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میری ایک غیر ملکی بیوی ہے جو کہ نو مسلم ہے، یہ رمضان اس کی زندگی کا پہلا رمضان ہے؛ تو چونکہ رمضان میں روزے رکھنے کی اسے عادت نہیں ہے تو روزوں کی وجہ سے اسے بے خوابی کا سامنا ہے، میری اہلیہ پہلے ہی نفسیاتی مرض کی دوا کھا رہی تھیں لیکن انہوں نے دو ماہ قبل ہی یہ دوا چھوڑ دی ہے، اس کا مزاج ہی خوف زدہ اور وسوسوں سے بھرا ہوا ہے، معمولی باتوں پر گھبرا جاتی ہے، وہ صرف اس لیے نہیں سوتی کہ اسے کچھ ہو نہ جائے، ان خیالات کی وجہ سے اس نے ذہنی تناؤ دور کرنے والی دوا کھا لی اور روزہ افطار کر لیا، تو کیا نو مسلم ہونے کی وجہ سے اسے پہلے رمضان کی بنا پر کوئی چھوٹ دی جائے گی یا نہیں؟
الحمد للہ.
اول:
رمضان کے روزے یقینی طور پر فرض ہیں، ان کی ادائیگی میں سستی بالکل روا نہیں ہے ، اس لیے سفر یا بیماری جیسے کسی عذر کی بنا پر ہی رمضان کا روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو ! تم پر روزے لکھ دئیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دئیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرۃ: 183]
اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (8) اور مسلم : (16)نے روایت کیا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص روزے چھوڑتا ہے تو وہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن چھوڑ رہا ہے ، جو کہ کبیرہ گناہ ہے، بلکہ بعض اہل علم تو ایسے شخص کے کافر ہونے کے قائل ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔
جیسے کہ مسند ابو یعلی میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسلام کی کڑیاں اور دین کی بنیاد تین چیزیں ہیں، انہی پر اسلام کی بنیاد ہے، جو ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ دے تو وہ کافر ہے اور اس کا خون بہانا جائز ہے: کلمہ شہادت، فرض نماز اور رمضان کے روزے۔)
اس حدیث کو علامہ ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے ، اسی طرح علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد: (1/ 48) میں اور منذری نے الترغیب ،والترہیب: 805، 1486 میں حسن قرار دیا ہے، جبکہ علامہ البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ : (94) میں اسے ضعیف کہا ہے۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب الکبائر: (64)میں لکھتے ہیں:
"اہل ایمان کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ جس شخص نے بھی بیماری یا کسی اور جائز عذر کے بغیر رمضان کے روزے چھوڑے تو وہ زانی اور شراب نوش سے بھی بد تر ہے، بلکہ ایسے شخص کے ایمان میں شک ہے، اہل ایمان ایسے شخص کے بارے میں زندیق ہونے کا خدشہ رکھتے ہیں۔" ختم شد
روزے چھوڑنے کے حوالے سے ابن خزیمہ : (1986)، ابن حبان: (7491) میں صحیح ثابت ہے کہ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا:
"میں سویا ہوا تھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور دونوں نے میرے بازوؤں سے پکڑا اور مجھے ایک خوفناک پہاڑ پر لے آئے اور دونوں نے مجھے کہا: اس پہاڑ پر چڑھو، میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا، تو دونوں نے مجھے کہا: ہم آپ کے لیے اسے آسان بنا دیں گے، تو میں چڑھنے لگا اور جب میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے والا تھا تو میں نے تیز آوازیں سنیں، اس پر میں نے کہا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: یہ جہنمی لوگوں کی چیخیں ہیں۔ پھر وہ دونوں مجھے آگے لے چلے، تو کچھ لوگوں کو ان کی کونچوں کے بل الٹا لٹکایا گیا تھا، ان کی باچھیں چیری ہوئی تھی، ان کی باچھوں سے خون بہہ رہا تھا، میں نے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل روزہ کھول لیتے تھے۔" اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح موارد الظمآن : (1509) میں صحیح قرار دیا ہے۔
البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے روزہ تو رکھا تھا لیکن وقت ہونے سے پہلے ہی عمداً افطار کر لیا ، تو اس کی سزا کتنی ہو گی جو روزہ بالکل ہی نہ رکھے!؟ ہم اللہ تعالی سے دنیا اور آخرت میں سلامتی اور عافیت طلب کرتے ہیں۔"
دوم:
ایسا مرض جو روزہ افطار کرنے کا عذر بن سکتا ہے وہ مرض ہے جس سے روزے دار کو بہت واضح مشقت ہو۔
جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/261) میں کہتے ہیں:
"کوئی عاجز مریض کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے شفا یاب ہونے کی امید ہو تو اس پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے ۔۔۔ یہ اس وقت ہے جب اسے روزہ رکھنے کی وجہ سے واضح مشقت کا سامنا کرنا پڑے، اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ مریض کی حالت ایسی ہو کہ وہ روزہ نہ رکھ سکے، بلکہ ہمارے فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ: روزہ افطار کرنے کی شرط یہ ہے کہ: روزے کی وجہ سے اتنی مشقت ہو کہ برداشت کرنا مشکل ہو جائے ۔" ختم شد
ایک اور جگہ پر انہوں نے کہا:
"معمولی مرض کہ جس کی وجہ سے کوئی زیادہ مشقت نہ ہو تو ہمارے ہاں بلا اختلاف روزہ کھولنا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
المجموع (6/261)
چنانچہ اگر آپ کی نو مسلم بیوی بیمار نہیں ہے، اور نہ ہی روزے کی وجہ سے اسے کوئی نقصان ہو گا تو اس کے لیے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ہے، آپ انہیں یہ بات واضح کر دیں، نیز یہ بھی بتلا دیں کہ روزہ چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے۔ تاہم ذہنی تناؤ اور بے خوابی کے حوالے سے معالج کے ساتھ مشورہ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو علاج بھی کروایا جا سکتا ہے اور نیند یا ذہنی تناؤ وغیرہ کی دوا بھی کھا سکتی ہیں۔ دوا لیتے ہوئے کوشش کرے کہ رات کو لے لے تا کہ دن میں روزہ مکمل ہو سکے، اور مزعومہ ذہنی تناؤ کی وجہ سے ماہ رمضان کی حرمت پامال نہ کرے۔
واللہ اعلم