اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

جھوٹى يا سچى قسم اٹھانے كى عادت پڑ گئى ہو تو اس كا كفارہ كيسے ادا كيا جائے؟

06-01-2011

سوال 36734

افسوس كہ بچپن سے ہى مجھے سچى يا جھوٹى قسميں اٹھانے كى عادت ہے، ميں نے اس برى عادت كو چھوڑنے كى بہت كوشش كى ليكن، ميرا خيال ہے كہ اب ميں صحيح راستے پر گامزن ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
پچھلى قسموں كا حكم كيا ہے، مجھے كيا كرنا ہو گا تا كہ اللہ تعالى مجھے معاف كردے؟
كيا ہر قسم كے بدلے ميں كفارہ ادا كروں، ليكن مشكل يہ ہے كہ مجھے اٹھائى گئى قسموں كى تعداد كا علم نہيں ؟

جواب کا خلاصہ:

آپ نے جو قسميں مستقبل ميں كسى كام كے كرنے يا نہ كرنے پر اٹھائى ہيں اور انہيں توڑ ديا ان ميں آپ پر كفارہ واجب ہوتا ہے. اور وہ قسميں جو آپ نے ماضى ميں كيے گئے يا نہ كردہ كام پر اٹھائى ہيں اور اس ميں آپ جھوٹے ہيں تو اس ميں آپ پر كفارہ نہيں، بلكہ آپ كےذمہ اللہ تعالى كے سامنے توبہ و استغفار كرنى ہے، اللہ تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرتا ہے. اللہ تعالى آپ كو توفيق عطا فرمائے اور آپ كے گناہ معاف كرے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

قسميں تين قسم كى ہيں:

پہلى:

منعقد شدہ قسميں:

يہ وہ قسميں ہيں جو قسم كھانے والے نے قصدا اٹھائى ہوں اور اس كا مصمصم ارادہ كيا ہو، اور كسى مستقل كے معاملے ميں ہو كہ وہ اسے كرے يا نہيں كرے گا.

اس كا حكم يہ ہے كہ: اس قسم كو توڑنے كى صورت ميں كفارہ واجب ہوتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جس كسى شخص نے بھى كوئى كام كرنے كى قسم اٹھائى اور پھر وہ كام نہ كيا، يا پھر كوئى كام نہ كرنے كى قسم اٹھائى اور پھر وہ كام كر ليا تو اس كے ذمہ كفارہ ہے )

اس ميں سب علاقوں كے فقھاء كرام كے ہاں كوئى اختلاف نہيں، ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: مسلمانوں كے اجماع كے مطابق جس قسم ميں كفارہ ہے، وہ قسم ہى جو مستقل كے افعال پر اٹھائى گئى ہو ).

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 9 / 390 ).

دوسرى:

لغو قسم: يہ وہ قسم ہے جو قسم كے ارادہ سے نہ اٹھائى گئى ہو، اوراس قسم ميں كفارہ نہيں ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہارى ان قسموں ميں تمہارا مؤاخذہ نہيں كرے گا جو لغو ہوں ( پختہ نہ ہوں ) ہاں وہ ان قسموں كا مؤاخذہ كرے گا جو تمہارے دلوں كے قصد اور فعل سے ہو، اور اللہ تعالى بخشنے والا اور بردبار ہے البقرۃ ( 225 ).

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

يہ آيت اللہ تعالى تمہارى لغو قسموں ميں تمہارا مؤاخذہ نہيں كرے گا .

آدمى كے اس قول كے متعلق نازل ہوئى كہ: نہيں اللہ كى قسم، اور كيوں نہيں اللہ كى قسم.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4613 ).

اور اگر كوئى شخص ايسى چيز پر قسم اٹھائے اور وہ اسے اسى طرح خيال كرے جيسے اس نے قسم اٹھائى ہے، اور وہ اس كے خلاف ظاہر ہو تو اكثر اہل علم كے ہاں اس كے ذمہ كفارہ نہيں ہے، اور يہ لغو قسم ميں شمار ہو گى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور جو كوئى كسى چيز پر قسم اٹھائے جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ ايسى ہى ہے جيسے اس نے قسم اٹھائى ہے، اور وہ اس طرح نہ ہو تو اس پر كفارہ نہيں؛ كيونكہ يہ لغو قسم ميں سے ہے.

اكثر اہل علم كے ہاں اس قسم پر كفارہ نہيں ہے، يہ ابن منذر كا قول ہے، اور ابن عباس، ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى تعالى عنہم، اور ابو مالك، زرارہ بن اوفى، نخعى، مالك، ابو حنيفہ، اور ثورى رحمہم اللہ سے مروى ہے.

اور اسے لغو قسم كہنے والوں ميں مجاہد، سليمان بن يسار، اوزاعى، الثورى، اور ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب شامل ہيں.

اور اكثر اہل علم كے ہاں لغو قسم ميں كفارہ نہيں ہے، ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كا قول ہے: مسلمانوں كا اس پر اجماع ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہارى لغو قسموں ميں تمہارا مؤاخذہ نہيں كرے گا.

اور يہ بھى اسى ميں سے ہے، اور اس ليے بھى كہ اس سے مخالفت مقصود نہيں ہے.

تيسرى:

يہ كہ كسى پچھلى چيز پر قسم اٹھائى جائے اور وہ اس ميں جھوٹا ہو، يہ قسم كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتى ہے، اور جمہور علماء كے ہاں اس پر كفارہ نہيں؛ كيونكہ يہ كفارہ ادا كرنے سے بڑى ہے.

جب يہ معلوم ہو گيا تو آپ نے جو منعقدہ قسميں اٹھائى ہيں اور انہيں پورا نہيں كيا تو اس ميں آپ پر كفارہ لازم آتا ہے.

اور اگر آپ كو ان قسموں كى تعداد كا علم نہيں تو آپ كوشش كر كے اتنے كفارے ادا كريں جن كى ادائيگى سے آپ كے گمان ميں غالب آجائے كہ آپ اس سے برى الذمہ ہو گئے ہيں.

اور ان قسموں ميں جو ايك ہى فعل پر تھيں، يا كسى ايك ہى فعل كے ترك كرنے پر تھيں، تو اس ميں ايك ہى كفارہ ہے، اس كى مثال يہ ہے كہ: آپ يہ قسم اٹھائيں كہ فلاں سے كلام نہيں كرينگے، اور پھر اسے توڑ ديا اور كفارہ ادا نہيں كيا، پھر آپ نے قسم اٹھائى كہ اس سے كلام نہيں كرينگے، اور اس قسم كو دوبارہ توڑ ديا تو آپ پر ايك كفارہ ہى لازم آئے گا.

ليكن مثلا اگر آپ نے قسم اٹھائى كہ آپ اس سے كلام نہيں كرينگے، اور پھر قسم اٹھائى كہ اس كا كھانا نہيں كھائيں گے تو اس صورت ميں آپ كو دو كفارے ادا كرنا ہونگے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 34730 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ وہاں ديكھ سكتے ہيں.

واللہ تعالى اعلم.

قسم اور نذر و نیاز
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔