"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا رجب كے مہينہ ميں عمرہ كرنے كى كوئى معين اور خاص فضيلت وارد ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
ہمارے علم كے مطابق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماہ رجب ميں عمرہ كرنے كى كوئى خاص فضيلت ثابت نہيں، اور نہ ہى اس كى كوئى ترغيب ثابت ہے، بلكہ رمضان المبارك اور حج كے مہينوں جو كہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ميں عمرہ كرنے كى فضيلت ثابت ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ سے رجب ميں عمرہ كرنا ثابت نہيں، بلكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے تو اس كا انكار كرتے ہوئے فرمايا ہے:
" نبى كريم صلى اللہ وسلم نے رجب كبھى بھى عمرہ نہيں كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1776 ) صحيح مسلم حديث نمبر (1255 )
دوم:
جو بعض لوگ خاص كر رجب ميں عمرہ كرتے ہيں يہ دين ميں بدعت شمار ہوتا ہے، كيونكہ وہ كسى زمانے ميں عبادت كرنے كا مكلف اس وقت ہى ہو سكتا ہے جو شريعت ميں وارد ہو.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كے شاگرد ابن عطار كہتے ہيں:
" مجھے يہ بات پہنچى ہے كہ اہل مكہ اللہ تعالى مكہ كے شرف و مرتبہ اور زيادہ كرے رجب ميں كثرت سے عمرہ كرنے كى عادت بنا چكے ہيں، اس كے متعلق مجھے تو كوئى دليل معلوم نہيں، بلكہ حديث ميں تو ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رمضان المبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے " انتہى
اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ تعالى اپنے فتاوى ميں كہتے ہيں:
" رہا مسئلہ ماہ رجب كے بعض ايام زيارت كے اعمال وغيرہ كے ليے خاص كرنا تو اس كى كوئى اصل نہيں ملتى، ابو شامہ رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " البدع والحودث " ميں يہى فيصلہ كيا ہے كہ جن اوقات ميں شريعت نے كوئى عبادت مخصوص نہيں كى اس كے وقت كى تخصيص كرنا صحيح نہيں، كيونكہ كسى وقت كو كسى دوسرے وقت پر كوئى فضيلت حاصل نہيں، ليكن جو شريعت نے كسى عبادت كو فضيلت دى ہے وہى ہے، يا پھر نيكى كے سب اعمال كو كسى دوسرے پر فضيلت دينا، اور اسى ليے علماء كرام نے رجب كے مہينہ ميں كثرت سے عمرہ كرنے كى تخصيص كرنے كو بھى غلط قرار ديا ہے" انتہى
ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 6 / 131 ).
ليكن اگر بغير كسى معين فضيلت كا اعتقاد ركھے كوئى شخص ماہ رجب ميں عمرہ كرنے جاتا ہے، بلكہ يہ اس كے موافق آ گيا يا پھر اسے اس وقت سفر كرنا ميسر ہوا تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .