"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
بالوں کی کٹنگ کی پریکٹس کے لیے وگ Wig خریدنے کا کیا حکم ہے؟ میں وگ اپنے سر پر استعمال نہیں کروں گی، میں تو صرف بالوں کی کٹنگ کی پریکٹس کرنا چاہتی ہوں، اور پھر کٹنگ کے بعد میں وگ کی تصویر لے کر سوشل میڈیا پر لگا سکتی ہوں؟ کیونکہ بالوں کی کٹنگ میرا مشغلہ ہے، میں چاہتی ہوں کہ بالوں کی کٹنگ کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے لیے عورتوں کی تصاویر نشر نہ کرنی پڑیں۔
الحمد للہ.
اول:
وگ (Wig) استعمال کرنا حرام ہے، جیسے کہ سوال: (عورتوں کے لیے مصنوعی بال اور وگ لگانے کا حکم ) کے جواب میں اس کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔
دوم:
غیر انسانی بالوں سے بنی ہوئی وگ (Wig) بالوں کی کٹنگ اور اسٹائل بنانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے خریدنا جائز ہے، نیز اس کی تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ بالوں کی کٹنگ یا اسٹائل ایسا نہ ہو کہ جو کافر اور فاسق عورتوں کی مشابہت رکھتا ہو۔
جبکہ انسانی بالوں کی خرید و فروخت اور انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان کی خرید و فروخت حرام بھی ہے اور یہ انسانی احترام کے بھی منافی ہے۔
جیسے کہ "الهداية شرح البداية" (3/46) میں ہے کہ:
"انسانی بالوں کی خرید و فروخت کرنا اور انہیں کسی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انسان سارے کا سارا ہی قابل احترام ہے اس کے کسی عضو کی بے حرمتی [چاہے وہ خرید و فروخت کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ مترجم] جائز نہیں لہذا کسی بھی انسانی عضو کی بے حرمتی نہ کی جائے۔" ختم شد
اسی طرح علامہ بہوتی "كشاف القناع" (1/57) میں کہتے ہیں:
"انسانی بالوں کو پاک بھی کہیں تو تب بھی انہیں کسی کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہی انسانی اعضا کی حرمت کا تقاضا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ ترجمہ: اور یقیناً ہم نے اولاد آدم کو قابل احترام بنایا ہے۔[بنی اسرائیل: 70] " ختم شد
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (26/102) میں ہے کہ:
"تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسانی بالوں کی خرید و فروخت اور استعمال کچھ بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کے ہر جزو کو اللہ تعالی نے محترم بنایا ہے ، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ ترجمہ: اور یقیناً ہم نے اولاد آدم کو قابل احترام بنایا ہے۔[بنی اسرائیل: 70] اس لیے انسان کے کسی بھی عضو کی اہانت روا نہیں ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم