"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایسی ادویات کا کیا حکم ہے جس میں الکحل کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے؟
الحمد للہ.
اول:
ادویات کو الکحل یعنی شراب کیساتھ ملانا جائز نہیں ہے، کیونکہ شراب کو بہا کر ضائع کر دینا ضروری ہے، چنانچہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہمارے پاس ایک یتیم بچے کی شراب تھی، اور جس وقت سورہ مائدہ کی آیت [شراب کی حرمت کے بارے میں]نازل ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، اور یہ بھی بتلایا کہ وہ کسی یتیم کی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے بھی انڈیل دو)"
ترمذی: (1263) البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
اگر دوا کو الکحل میں ملا دیا گیا ہو، اور اس الکحل کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ دوا نشہ آور بن جائے تو یہ شراب ہے، جسے پینا حرام ہے، اور اگر الکحل کی مقدار بہت ہی تھوڑی ہے کہ اس سے نشہ نہ چڑھے تو پھر اس دوا کا استعمال جائز ہے۔
چنانچہ "فتاوى اللجنة الدائمة" (22/110) میں ہے کہ:
"نشہ آور الکحل کو ادویات میں شامل کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ادویات میں الکحل کو شامل کر دیا گیا ہے ، اور زیادہ مقدار میں یہ ادویات استعمال کرنے سے نشہ آتا ہو تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور انہیں استعمال کرنا دونوں ناجائز ہیں، چاہے اس کی مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ، اور اگر بہت زیادہ مقدار میں ان ادویات کے استعمال پر بھی نشہ نہیں آتا تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور استعمال کرنا جائز ہے۔" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ ادویات میں الکحل پایا جاتا ہے، تو اگر اس دوا کے استعمال سے انسان کو نشہ چڑھے تو اس دوا کا استعمال حرام ہوگا، اور اگر اس کا اثر واضح نہ ہو ، بلکہ الکحل کو دوا محفوظ بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ الکحل کا اس میں کوئی اثر نہیں ہے" انتہی
"لقاءات الباب المفتوح" (3/231)
واللہ اعلم.