"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک حدیث: (جو شخص امام کے ساتھ نماز ادا کرے یہاں تک امام چلا جائے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔) کو بہت سے اہل علم نے تراویح پر محمول کیا ہے۔ تو اس حدیث میں تراویح کیسے مراد ہو سکتی ہے ؛ کیونکہ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو تراویح نہیں پڑھائیں، نہ ہی صحابہ کرام کو حکم دیا کہ امام کے ساتھ تراویح ادا کریں، آپ تو اکیلے ہی نماز کے لیے مسجد میں آئے تھے تو دو راتیں لوگ خود ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے رہے، لیکن تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی مسجد میں نہ آئے، صحابہ اکیلے اکیلے ہی نماز ادا کرتے رہے، یا عہدِ عمر رضی اللہ عنہ تک دو چار لوگ اکٹھے ہو کر تروایح پڑھ لیا کرتے تھے، تو اس صورت میں ہم اس حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل میں تطبیق کیسے دیں گے؟ خصوصاً اس صورت میں بھی کہ کچھ علمائے کرام نے اس حدیث کو غالبا علامہ سیوطی نے شرح ترمذی میں عشا کی نماز پر محمول کیا ہے، تراویح کی نماز پر محمول نہیں کیا۔
الحمد للہ.
صحیح موقف یہ ہے کہ یہ حدیث نماز تراویح کے بارے میں ہے ، نماز عشا کے بارے میں نہیں ہے۔
جیسے کہ امام نسائی: (1364)، ترمذی: (806)، ابو داود : (1375) اور ابن ماجہ: (1327) نے اسے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں: "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ رمضان میں روزہ رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں قیام اللیل نہیں کروایا، حتی کہ رمضان کی صرف سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں تقریباً ایک تہائی رات تک قیام کروایا، پھر جب چھ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں قیام نہ کروایا پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آدھی رات گزر جانے تک قیام کروایا۔ اس پر ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کاش آپ ہمیں اس پوری رات میں قیام کرواتے ! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً جب کوئی شخص امام کے ساتھ آخر تک قیام کرتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھ دیا جاتا ہے۔) " اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت فرمائی جب صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری رات قیام کروایا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کی چاہت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں بقیہ رات بھی قیام کروائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں واضح کیا کہ مقتدی جب امام کے ہمراہ آخر تک قیام کرتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے، اگرچہ انہوں نے امام کے ہمراہ رات کے صرف کچھ حصے میں ہی قیام کیا ہو۔
جیسے کہ "عون المعبود شرح ابو داود"(4/174) میں ہے کہ:
"یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، تو انہوں نے کہا: کاش کہ آپ اس رات قیام کروائیں۔ جبکہ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: کاش کہ آپ ہمیں بقیہ رات بھی قیام کروائیں، یعنی آدھی رات کے بعد بقیہ حصے میں بھی قیام کروا کر ہمیں زیادہ قیام کروائیں۔
النھایہ میں اس کا معنی یہ ہے کہ: آپ ہمیں مزید نفل نماز پڑھائیں، انہیں نفل نماز اس لیے کہا گیا کہ یہ فرائض سے زائد نماز ہے۔
علامہ مظہر کہتے ہیں: تقدیری عبارت یوں ہو گی: اگر آپ ہمیں آدھی رات کے بعد بھی مزید قیام کرواتے ؛یہ ہمارے لیے بہتر ہوتا، یہاں پر حدیث کے عربی الفاظ میں کلمہ "لو" تمنا کے لیے ہے۔ {حتى ينصرف } یعنی: یہاں تک کہ امام چلا جائے ، { حسب له} اسے مجہول پڑھا جائے گا، یعنی اس کے لیے شمار کیا جائے گا ، سمجھا جائے گا۔ { قيام الليلة} یعنی: اسے مکمل رات کے قیام کا ثواب حاصل ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ: انہیں ساری رات فرض ادا کرنے کا اجر ملے گا، نوافل کی کثرت انسانی جسم کی چستی پر محمول ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو اکتاہٹ نہیں ہوتی ، اکتاہٹ لوگوں کو ہوتی ہے۔ المرقاۃ میں ہے کہ: یہاں فرض سے مراد عشا اور فجر کی نماز ہے۔" ختم شد
اس حدیث کو عشا کی نماز پر محمول کرنے والے کا موقف صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ انہوں نے اپنے اس موقف کی بنیاد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث پر رکھی ہے کہ: جس نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات قیام کیا، اور جس نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
یہ ایک اور فضیلت ہے، اس کا سوال میں مذکور حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں نماز فجر کا ذکر کرنا پڑا حالانکہ نماز فجر کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس حدیث کے مطابق ساری رات کے قیام کا اجر پانے کے لیے نماز فجر کا ہونا ضروری ہے محض نماز عشا سے ساری رات کے قیام کا اجر نہیں ملے گا۔
جبکہ سوال میں مذکور حدیث کا مفہوم بھی واضح ہے کہ امام کے ہمراہ جتنی دیر انہوں نے قیام کیا اور وہ آدھی رات تک تھا، یہی آدھی رات تک کا قیام پوری رات کے قیام کے برابر ہے، اور یہ امام کے ساتھ مکمل قیام کرنے کی فضیلت ہے۔
علامہ سندھی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ(1/398) میں کہتے ہیں:
"طحاوی رحمہ اللہ نے شرح الآثار میں کہا ہے کہ: اس حدیث کو انہوں نے اپنی دلیل بنایا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان میں امام کے ہمراہ قیام افضل ہے۔
جبکہ دوسرا موقف رکھنے والے دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں: (انسان کی گھر میں نماز افضل ہوتی ہے، سوائے فرض نماز کے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث صحابہ کرام کو اس وقت فرمائی تھی جب آپ نے انہیں اپنی مسجد میں رمضان کی ایک رات قیام کروایا، پھر آپ نے صحابہ کرام کو مزید قیام کروانے کا ارادہ کیا تو انہیں بتلایا کہ ان کی اپنے گھروں میں تنہا نماز مسجد نبوی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز سے بھی افضل ہے؛ تو کسی اور امام کے ہمراہ وہ بھی کسی اور مسجد میں کیسے افضل ہو سکتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ ٹھیک ہے کہ امام کے ہمراہ رات کے کچھ حصے میں قیام کرنے کی وجہ سے ساری رات کا قیام لکھ دیا جائے، اور اپنے گھر میں قیام اس سے بھی افضل ہو۔ اس طرح دونوں میں کوئی تضاد باقی نہ رہے گا۔" ختم شد
ابن رسلانؒ "شرح ابی داود" (6/623) میں کہتے ہیں:
"یقیناً جب کوئی آدمی امام کے ہمراہ اس وقت تک نماز ادا کرتا ہے جب تک امام چلا نہیں جاتا تو اس کے لیے ساری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے۔ سنن نسائی کے الفاظ ہیں کہ: "یقیناً جو شخص اپنے امام کے ہمراہ قیام کرتا ہے یہاں تک کہ امام چلا جائے تو اللہ تعالی اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھ دیتا ہے" جبکہ ابن ماجہ کے الفاظ ہیں: "تو یہ عمل ساری رات کے قیام کے برابر ہے۔"
زیادہ بہتر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ فضیلت صرف قیام ِ رمضان کے ساتھ خاص ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (یقیناً آدمی جب امام کے ہمراہ نماز ادا کرے) یہ صحابہ کرام کے سوال کے جواب میں ہے کہ: "کاش آپ ہمیں اس رات مزید نفل پڑھائیں" تو جو جواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا وہ اسی سوال کے تابع ہو گا، اور یہ سوال رمضان میں رات کا قیام ہے۔
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امام کے ساتھ نماز کا ذکر کیا ہے، اور پھر حرف غایت "حتی" بھی استعمال کیا جو کہ غایت کے معنی میں ہے اور جب غایت استعمال ہو تو مُغَیَّۃ کا ہونا بھی لازم ہوتا ہے۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ فضیلت تبھی حاصل ہو گی جب مقتدی کے لیے متعدد نمازیں امام کی اقتدا میں جمع ہو جائیں ، اور متعدد نمازیں صرف عشا کی نماز میں جمع نہیں ہو سکتیں۔
یہ بھی جائز ہے کہ اس فضیلت میں فرائض بھی شامل ہو جائیں، جیسے کہ سنن ابو داود اور ترمذی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا آپ فرما رہے تھے: (جو شخص عشا اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو اس کے لیے ساری رات قیام کی طرح ہو جائیں گی) تو اس سے دلیل ملتی ہے کہ جو شخص یہ دونوں نمازیں امام کے ساتھ پڑھے اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ شافعی اور دیگر اہل علم کے ہاں صحیح موقف یہ ہے کہ جماعت امام اور صرف ایک مقتدی کے ساتھ بن جاتی ہے۔" ختم شد
اس بات کی تائید کہ یہ روایت تراویح کے بارے میں ہے فرائض کے متعلق نہیں ہے اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ: فرض نماز میں انسان کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جب مرضی نماز چھوڑ کر چلا جائے اور جتنی دیر مرضی پڑھتا رہے۔
جیسے کہ ابو الحسن مبارکپوری "مرعاة المفاتيح" (4/318) میں کہتے ہیں:
"سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جس حدیث کی جانب ملا علی القاری نے اشارہ کیا ہے، اس کے مفہوم کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ: جو شخص بھی عشا اور فجر کی نماز کے فرائض امام کے ساتھ یعنی با جماعت ادا کرتا ہے تو اس کے لیے مکمل رات کے قیام کا ثواب ہے وہ بھی ساری رات فرض پڑھتے رہنے کا۔ اور اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ: جب مقتدی امام کے ساتھ تراویح پڑھے یہاں تک کہ امام چلا جائے تو اس کے لیے ساری رات قیام کا ثواب ملے گا، لیکن وہ ثواب نفل پڑھنے کا ہو گا۔
کہا گیا ہے کہ: اس کی تائید ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کی ا س روایت سے بھی ہوتی ہے کہ: جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے۔ وہاں یہ نہیں ہے کہ امام کے ساتھ نماز ادا کرے؛ کیونکہ قیام کے الفاظ تراویح کے لیے ہوتے ہیں، فرض نماز کے لیے نہیں ۔ پھر اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں بقیہ رات بھی قیام کروائیں۔ اس سوال کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں ایسا جواب دیں کہ جس میں ہو کہ اب تمہیں بقیہ رات قیام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ جس مقدار میں انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام کروا دیا ہے اس مقدار سے بقیہ ساری رات کے قیام کا ثواب مل جائے گا۔
اس مفہوم کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حدیث کے الفاظ ہیں: { حتى ينصرف} یہاں تک کہ امام چلا جائے۔ تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ایسی کوئی نماز مراد ہے جہاں مقتدی کے لیے کسی بھی وقت چلے جانا ممکن ہو پوری نہ کرے، اور یہ بات معلوم ہے کہ فرض پڑھتے ہوئے درمیان میں چھوڑ کر جانا نا ممکن ہے؛ کیونکہ فرائض میں تو امام کے ساتھ ہی سلام پھیرا جاتا ہے، جبکہ تراویح میں ممکن ہے کہ امام کے چلے جانے سے پہلے انسان تراویح درمیان میں چھوڑ کر چلا جائے؛ کیونکہ تراویح میں دو ، دو رکعات کر کے نماز پڑھی جاتی ہے، تو تراویح میں یہ ممکن ہے کہ امام کی نماز مکمل ہونے سے پہلے مقتدی تراویح ادھوری چھوڑ کر چلا جائے۔" ختم شد
خلاصہ کلام:
یہ اجر اور فضیلت نماز تراویح کے بارے میں بھی بالکل واضح ہے، تاہم یہی اجر عشا اور فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے والے لیے بھی ہو سکتا ہے، اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
واللہ اعلم