"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے ايك حديث پڑھى كہ: اللہ تعالى نمازى كے سامنے ہوتا ہے، اس حديث كا معنى كيا ہے؟ اور كيا يہ اللہ تعالى كے آسمان ميں ہونے كي مخالف ہے ؟
الحمد للہ.
سوال نمبر ( 992 ) اور ( 11035 ) كے جوابات ميں يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ اللہ تعالى عرش پر مستوى اور اپنى مخلوق سے بلند و بالا ہے.
نيز امام بخاري اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كي ہے جس ميں ہے كہ :
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبلہ كي جانب والى ديوار ميں تھوك ديكھى تو اسے كھرچ ديا اور پھر لوگوں كي جانب متوجہ ہو كر فرمايا:
" تم ميں سے جب كوئي نماز ادا كر رہا ہو تو اپنے سامنے نہ تھوكے كيونكہ جب وہ نماز ادا كر رہا ہو تو اللہ تعالى اس كے چہرے كے سامنے ہوتا ہے" صحيح بخاري حديث نمبر ( 406 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 547 ).
اس حديث اور اللہ تعالى كا مخلوق سے بلند وبالا ہونے ميں كوئي تعارض نہيں ہے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان " تم ميں سے جب كوئي نماز ميں ہو تو اللہ تعالى اس كے چہرے كے سامنے ہوتا ہے، لھذا تو اپنے سامنے نہ تھوكے"
يہ فرمان حق اور اپنے ظاہر پر ہے ، وہ اللہ سبحانہ وتعالى عرش پر اور وہ نمازى كے سامنے ہے، بلكہ يہ وصف تو مخلوقات كے لئے بھى ثابت ہے، كيونكہ اگر كوئى انسان آسمان يا سورج اور چاند كے ساتھ سرگوشى كرے تو آسمان اور سورج اور چاند اس كے اوپر بھى ہو گا اور اس كے سامنے بھى اھ ديكھيں مجموع الفتاوى ( 5 / 101 ) .
اور ايك جگہ پر كہتے ہيں:
يہ تو معلوم ہے كہ جو كوئي بھى چاند كي طرف متوجہ ہو اور اسے مخاطب كرے - فرض كريں جب وہ اسے مخاطب كرے - تو وہ صرف اپنے چہرے كے ساتھ ہى اس كي جانب متوجہ ہو گا باوجود اس كے كہ چاند اس كے اوپر ہے.... تو اسى طرح جب بندہ نماز ميں كھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب كي جانب متوجہ ہوتا ہے اور وہ اس كے اوپر ہے لھذا وہ اسے سامنے كي جانب سے پكارتا ہے نہ كہ دائيں يا بائيں سے، اور اسے اوپر سے پكارتا ہے نہ كہ نيچے سے اھ ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 5 / 672 ) .
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اللہ تعالى نمازى كے سامنے ہونے كي دليل يہ ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " تم ميں كوئي ايك جب نماز ميں كھڑا ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوكے كيونكہ اس كے سامنے اللہ عزوجل ہے "
اور اس كا يہ سامنے ہونا حقيقتا اسى طرح ثابت ہے جس طرح اللہ جل جلالہ كے شايان شان اور اس كے لائق ہے، اور يہ دو اعتبار سے اس كے علو و بلند ہونے كے منافى نہيں:
1 - مخلوقات ميں ان دونوں اشياء كا جمع ہونا ممكن، جيسا كہ اگر سورج طلوع ہو رہا ہو تو جو كوئي بھى مشرق كي جانب متوجہ ہو سورج اس كے سامنے ہو گا حالانكہ سورج آسمان ميں ہے، لھذا جب ان دنوں كا مخلوق ميں جمع ہونا جائز ہے تو پھر مخلوق كا خالق اس كا زيادہ حقدار ہے.
2 - اگر مخلوق كے حق ميں ان دونوں كا جمع ہونا ممكن نہ بھى ہو تو اس سے يہ لازم نہيں آتا كہ خالق كے حق ميں بھى يہ دونوں جمع نہيں ہو سكتيں كيونكہ اللہ تعالى كي مثل كوئي چيز نہيں ہے . اھ
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 4 / 287 ) .
واللہ اعلم .