"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
يہ عمل جائز نہيں، اور حرام رشوت شمار ہوگا، كيونكہ اس ميں احتمال ہے كہ ملازم اس كمپنى كے ساتھ تعلقات ركھے جو اسے ہديہ ديتى ہے اور باقى كمپنيوں سے تعلق نہ ركھے، اور اس ميں لوگوں كا ناحق طريقہ سے مال كھانا ہے، اور پھر ايسا كرنے ميں دوسروں كو نقصان پہنچانا بھى ہے.
اس ليے اس سے اجتناب كرنا اور بچنا واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رشوت خور اور رشوت دينے والے پر لعنت فرمائى ہے.
اللہ تعالى ہم سلامتى و عافيت كى دعا كرتے ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 576 ).
اور اس كے علاوہ بھى اس ميں كئى ايك خرابياں ہيں جس كى طرف سائل نے اشارہ كيا ہے، وہ يہ كہ:
ايسا كرنے سے مريض كو نقصان اور ضرر ہو سكتا ہے، كمپنى كى جانب سے ہديہ كے حصول كے طمع و لالچ ميں ڈاكٹر مريض كو اس كمپنى كى ادويات تجويز كر كے دے گا، حالانكہ مريض كے ليے اس كے علاوہ دوسرى دعائيں زيادہ فائدہ مند ہيں.
واللہ اعلم .